ہجرت کا نواں سال

-: آیت تخییر و ایلاء

-: ایک غلط فہمی کا ازالہ

-: عاملوں کا تقرر

-: بنی تمیم کا وفد

-: حاتم طائی کی بیٹی اور بیٹا مسلمان

ربیع الآ خر ۹ھ؁ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ماتحتی میں ایک سو پچاس سواروں کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ ’’طی‘‘ کے بت خانہ کو گرا دیں ۔ ان لوگوں نے شہرفلس میں پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ کر اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک ِشام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول اﷲ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) میں ’’حاتم طائی‘‘ کی لڑکی ہوں ۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی ’’عدی بن حاتم‘‘ مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں ضعیفہ ہوں آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا آپ پر احسان کرے گا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی اور اس کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے خلق عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں نے بارگاہ نبوت میں یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃللعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دست ِرحمت میں لے لیا اور فرمایا کہ اے عدی! تم کس چیز سے بھاگے؟ کیا ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ ‘‘کہنے سے تم بھاگے؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے؟ عدی بن حاتم نے کہا کہ’’ نہیں ‘‘ پھر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے ان کے اسلام قبول کرنے سے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ فرطِ مسرت سے آپ کا چہرۂ انور چمکنے لگا اور آپ نے ان کو خصوصی عنایات سے نوازا۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح بہت ہی سخی تھے۔ حضرت امام احمد ناقل ہیں کہ کسی نے ان سے ایک سو درہم کا سوال کیا تو یہ خفا ہوگئے اور کہا کہ تم نے فقط ایک سو درہم ہی مجھ سے مانگا تم نہیں جانتے کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں خدا کی قسم! میں تم کو اتنی حقیر رقم نہیں دوں گا۔

یہ بہت ہی شاندار صحابی ہیں ، خلافت صدیق اکبر میں جب بہت سے قبائل نے اپنی زکوٰۃ روک دی اور بہت سے مرتد ہو گئے یہ اس دور میں بھی پہاڑ کی طرح اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی قوم کی زکوٰۃ لا کر بارگاہ خلافت میں پیش کی اور عراق کی فتوحات اور دوسرے اسلامی جہادوں میں مجاہد کی حیثیت سے شریک ہوئے اور ۶۸ھ؁ میں ایک سو بیس برس کی عمر پا کر وصال فرمایا اور صحاح ستہ کی ہر کتاب میں آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیثیں مذکور ہیں ۔1

(زرقانی ج۳ص۵۳ و مدارج ج۲ ص۳۳۷)


1المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، ھدم صنم طیئ، ج۴، ص۴۸۔۵۰

-: غزوۂ تبوک

-: غزوۂ تبوک کا سبب

-: فہرست چندہ دہندگان

-: فوج کی تیاری

-: تبوک کو روانگی

-: راستے کے چند معجزات

-: ہوا اڑا لے گئی

-: گمشدہ اونٹنی کہاں ہے ؟

-: تبوک کا چشمہ

-: رومی لشکر ڈر گیا

-: ذوالبجادین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر

-: مسجد ضرار

-: صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ امیر الحج

۹ ھ کے واقعات متفرقہ :-

-: وفود العرب

-: استقبالِ وفود

-: وفد ثقیف

-: وفد کندہ

-: وفد بنی اشعر

-: وفد بنی اسد

-: وفد فزارہ

-: وفد بنی مرہ

-: وفد بنی البکاء

-: وفد بنی کنانہ

-: وفد بنی ہلال

-: وفد ضمام بن ثعلبہ

-: وفدَ بلی

-: وفد تُجیب

-: وفد مزینہ

-: وفد دوس

-: وفد بنی عبس

-: وفد دارم

-: وفد غامد

-: وفد نجران