ہجرت کا دوسرا سال

-: قبلہ کی تبدیلی

۱ھ کی طرح ۲ھ میں بھی بہت سے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے جن میں سے چند بڑے بڑے واقعات یہ ہیں:

جب تک حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ میں رہے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو خداوند تعالٰی کایہ حکم ہوا کہ آپ اپنی نمازوں میں ’’بیت المقدس‘‘ کو اپنا قبلہ بنائیں ۔ چنانچہ آپ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر آپ کے دل کی تمنا یہی تھی کہ کعبہ ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ چنانچہ آپ اکثر آسمان کی طرف چہرہ اٹھا اٹھا کر اس کے لئے وحیِ الٰہی کا انتظار فرماتے رہے یہاں تک کہ ایک دن اﷲ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قلبی آرزو پوری فرمانے کے لئے قرآن کی یہ آیت نازل فرما دی کہ

قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ1

(بقرہ)

ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپکا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ہم ضرور آپ کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے تو ابھی آپ پھیر دیجیے اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف۔

چنانچہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قبیلۂ بنی سلمہ کی مسجد میں نمازِ ظہر پڑھا رہے تھے کہ حالت نما زہی میں یہ وحی نازل ہوئی اور نماز ہی میں آپ نے بیت المقدس سے مڑ کر خانہ کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کر لیااور تمام مقتدیوں نے بھی آپ کی پیروی کی۔ اس مسجد کو جہاں یہ واقعہ پیش آیا ’’مسجد القبلتین‘‘ کہتے ہیں اور آج بھی یہ تاریخی مسجد زیارت گاہ خواص و عوام ہے جو شہر مدینہ سے تقریباً دوکیلو میٹر دور جانب شمال مغرب واقع ہے۔

اس قبلہ بدلنے کو’’ تحویل قبلہ‘‘ کہتے ہیں ۔ تحویل قبلہ سے یہودیوں کو بڑی سخت تکلیف پہنچی جب تک حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تو یہودی بہت خوش تھے اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کرکے عبادت کرتے ہیں مگر جب قبلہ بدل گیا تو یہودی اس قدر برہم اور ناراض ہو گئے کہ وہ یہ طعنہ دینے لگے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چونکہ ہر بات میں ہم لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے محض ہماری مخالفت میں قبلہ بدل دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کا گروہ بھی طرح طرح کی نکتہ چینی اور قسم قسم کے اعتراضات کرنے لگا تو ان دونوں گروہوں کی زبان بندی اور دہن دوزی کے لئے خداوند کریم نے یہ آیتیں نازل فرمائیں :

سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَاؕ-قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُؕ-یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۴۲)2 وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ-3

(بقرہ)

اب کہیں گے بیوقوف لوگوں میں سے کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے آپ کہہ دیجیے کہ پورب پچھم سب اﷲ ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے اور(اے محبوب) آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتاہے اورکون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بلا شبہ یہ بڑی بھاری بات تھی مگر جن کو اﷲ تعالٰی نے ہدایت دے دی ہے(ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں )

پہلی آیت میں یہودیوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا کہ خدا کی عبادت میں قبلہ کی کوئی خاص جہت ضروری نہیں ہے۔ اس کی عبادت کے لئے پورب، پچھم، اتر، دکھن، سب جہتیں برابر ہیں اﷲ تعالٰی جس جہت کو چاہے اپنے بندوں کے لئے قبلہ مقرر فرما دے لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری آیت میں منافقین کی زَبان بندی کی گئی ہے جو تحویل قبلہ کے بعد ہر طرف یہ پروپیگنڈا کرنے لگے تھے کہ پیغمبر اسلام تو اپنے دین کے بارے میں خود ہی متردد ہیں کبھی بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ کعبہ قبلہ ہے۔ آیت میں تحویل قبلہ کی حکمت بتا دی گئی کہ منافقین جو محض نمائشی مسلمان بن کر نمازیں پڑھا کرتے تھے وہ قبلہ کے بدلتے ہی بدل گئے اور اسلام سے منحرف ہو گئے۔ اس طرح ظاہر ہو گیا کہ کون صادق الایمان ہے اور کون منافق اور کون رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہے اور کون دین سے پھر جانے والا۔4

(عام کتب تفسیر و سیرت)

مسجد القبلتين سمتِ بيت المقدس

مسجد القبلتين سمتِ خانه کعبه


1 پ۲، البقرۃ : ۱۴۴ 2پ۲، البقرۃ : ۱۴۲ 3 پ۲، البقرۃ : ۱۴۳ 4المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، تحویل القبلۃ۔۔۔الخ، ج۲، ص۲۴۶، ۲۴۹، ۲۵۰ ومدارج النبوت ، قسم سوم، با ب دوم، ج۲، ص۷۳ملخصاً

-: لڑائیوں کا سلسلہ

-: غزوہ و سریّہ کا فرق

-: غزوات و سرایا

-: سریۂ حمزہ

-: سریۂ عبیدہ بن الحارث

-: سریۂ سعد بن ابی وقاص

-: غزوۂ ابواء

-: غزوۂ بواط

-: غزوۂ سفوان

-: غزوۂ ذی العُشیرہ

-: سریۂ عبد اﷲ بن جحش

-: جنگ ِ بدر

-: جنگ بدر کا سبب

-: مدینہ سے روانگی

-: ننھا سپاہی

-: کفار قریش کا جوش

-: ابو سفیان

-: کفار میں اختلاف

-: کفار قریش بدر میں

-: تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ سلم بدر کے میدان میں

-: سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شب بیداری

-: کون کب ؟ اور کہاں مرے گا ؟

-: لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی

-: شکم مبارک کا بوسہ

-: عہد کی پابندی

-: دونوں لشکر آمنے سامنے

-: دعائے نبوی

-: لڑائی کس طرح شروع ہوئی

-: حضرت عمیر کا شوقِ شہادت

-: کفار کا سپہ سالار مارا گیا

-: حضرت زبیر کی تاریخی برچھی

-: ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا

-: ابو البختری کا قتل

-: اُمیّہ کی ہلاکت

-: فرشتوں کی فوج

-: کفار نے ہتھیار ڈال دیئے

-: شہدائے بدر

-: بدر کا گڑھا

-: کفار کی لاشوں سے خطاب

-: ضروری تنبیہ

-: مدینہ کو واپسی

-: مجاہدین بدر کا استقبال

-: قیدیوں کے ساتھ سلوک

-: اسیرانِ جنگ کا انجام

-: حضرت عباس کا فدیہ

-: حضرت زینب کا ہار

-: مقتولین بدر کا ماتم

-: عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش

-: مجاہدین بدر کے فضائل

-: ابو لہب کی عبر تناک موت

-: غزوہ بنی قینقاع

-: غزوۂ سویق

-: حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی شادی

۲ھ کے متفرق واقعات :-