ہجرت کا تیسرا سال

-: جنگ اُحد

اس سال کاسب سے بڑا واقعہ ’’جنگ ِ اُحد‘‘ ہے۔ ’’احد‘‘ ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل دور ہے۔ چونکہ حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں درپیش ہوااسی لئے یہ لڑائی ’’غزوۂ اُحد‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں اس لڑائی کے واقعات کا خداوند عالم نے تذکرہ فرمایا ہے۔

جنگ ِ اُحد کا سبب :-

یہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر میں ستر کفار قتل اور ستر گرفتار ہوئے تھے۔ اور جو قتل ہوئے ان میں سے اکثر کفارِ قریش کے سردار بلکہ تاجدار تھے۔ اس بنا پر مکہ کا ایک ایک گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اور قریش کا بچہ بچہ جوشِ انتقام میں آتش غیظ و غضب کا تنور بن کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بے قرار تھا۔ عرب خصوصاً قریش کا یہ طرۂ امتیاز تھا کہ وہ اپنے ایک ایک مقتول کے خون کا بدلہ لینے کو اتنا بڑا فرض سمجھتے تھے جس کو ادا کئے بغیر گویا ان کی ہستی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے مقتولوں کے ماتم سے جب قریشیوں کو فرصت ملی تو انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد مسلمانوں سے اپنے مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا چاہیے۔ چنانچہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اور اُمیہ کا لڑکا صفوان اور دوسرے کفارِ قریش جن کے باپ، بھائی، بیٹے جنگ ِ بدر میں قتل ہو چکے تھے سب کے سب ابو سفیان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں نے ہماری قوم کے تمام سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے۔ اس کا بدلہ لینا ہمارا قومی فریضہ ہے لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ قریش کی مشترکہ تجارت میں امسال جتنا نفع ہوا ہے وہ سب قوم کے جنگی فنڈ میں جمع ہو جانا چاہیے اوراس رقم سے بہترین ہتھیار خرید کر اپنی لشکری طاقت بہت جلد مضبوط کر لینی چاہیے اور پھر ایک عظیم فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کرکے بانیء اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دینا چاہیے۔ ابو سفیان نے خوشی خوشی قریش کی اس درخواست کو منظور کر لیا۔ لیکن قریش کو جنگ ِ بدر سے یہ تجربہ ہوچکاتھاکہ مسلمانوں سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آندھیوں اورطوفانوں کا مقابلہ، سمندر کی موجوں سے ٹکرانا، پہاڑوں سے ٹکر لینا بہت آسان ہے مگر محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عاشقوں سے جنگ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی جنگی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ کرنا نہایت ضروری خیال کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہتھیاروں کی تیاری اور سامان جنگ کی خریداری میں پانی کی طرح روپیہ بہانے کے ساتھ ساتھ پورے عرب میں جنگ کا جوش اور لڑائی کا بخار پھیلانے کے لئے بڑے بڑے شاعروں کو منتخب کیاجو اپنی آتش بیانی سے تمام قبائل عرب میں جوشِ ا نتقا م کی آگ لگا دیں ’’عمروجمحی‘‘ اور ’’مسافع‘‘ یہ دونوں اپنی شاعری میں طاق اورآتش بیانی میں شہرۂ آفاق تھے، ان دونوں نے باقاعدہ دورہ کرکے تمام قبائل عرب میں ایسا جوش اور اشتعال پیدا کر دیا کہ بچہ بچہ ’’خون کا بدلہ خون‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مرنے اور مارنے پر تیار ہو گیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی فوج تیار ہو گئی۔ مردوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے معزز اور مالدار گھرانوں کی عورتیں بھی جوش انتقام سے لبریز ہو کر فوج میں شامل ہو گئیں ۔جن کے باپ، بھائی، بیٹے، شوہر جنگ ِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ ان عورتوں نے قسم کھا لی تھی کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے قاتلوں کا خون پی کر ہی دم لیں گی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ہند کے باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کے چچا کو جنگ ِ بدر میں قتل کیا تھا۔ اس بنا پر ’’ہند‘‘ نے ’’وحشی‘‘ کو جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قتل پر آمادہ کیااور یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو قتل کر دیا تو وہ اس کارگزاری کے صلہ میں آزاد کر دیاجائے گا۔1


1 المواہب اللدنیۃ و الزرقانی، باب غزوۃ احد، ج۲، ص۳۸۶۔۳۹۱ ملتقطاً و ملخصاً

-: مدینہ پر چڑھائی

-: مسلمانوں کی تیاری اور جوش

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے یہود کی امداد کو ٹھکرا دیا

-: بچوں کا جوش جہاد

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میدان جنگ میں

-: جنگ کی ابتداء

-: ابو دجانہ کی خوش نصیبی

-: حضرت حمزہ کی شہادت

-: حضرت حنظلہ کی شہادت

-: ناگہاں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا

-: حضرت مصعب بن عمیر بھی شہید

-: زیاد بن سکن کی شجاعت اور شہادت

-: کھجور کھاتے کھاتے جنت میں

-: لنگڑاتے ہوئے بہشت میں

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زخمی

-: صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا جوش جاں نثاری

-: اابو سفیان کا نعرہ اور اس کا جواب

-: ہند جگر خوار

-: سعد بن الربیع کی وصیت

-: خواتین اسلام کے کارنامے

-: حضرت اُمِ عمارہ کی جاں نثاری بیداری

-: ایک انصاری عورت کا صبر

-: شہدائے کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم

-: قبورِ شہداء کی زیارت

-: حیاتِ شہداء

-: کعب بن اشرف کا قتل

-: غزوہ غطفان

۳ ھ کے واقعات متفرقہ :-