اخلاق نبوت

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عقل

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خلق خدا سے کیا پوچھنا؟ جب کہ خود خالق اخلاق نے یہ فرما دیا کہ

اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) 1

یعنی اے حبیب! بلا شبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر ہیں ۔

آج تقریباً چودہ سو برس گزر جانے کے بعد دشمنان رسول کی کیا مجال کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بد اخلاق کہہ سکیں اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے دشمنوں کے مجمعوں میں اپنے عملی کردار کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ خداوند قدوس نے قرآن میں اعلان فرمایا کہ

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ 2

(آلِ عمران)

(اے حبیب) خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں بداخلاق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔

دشمنانِ رسول نے قرآن کی زَبان سے یہ خدائی اعلان سنا مگر کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ اس کے خلاف کوئی بیان دیتا یا اس آفتاب سے زیادہ روشن حقیقت کو جھٹلاتابلکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اوررحیم و کریم ہیں ۔

بہر حال حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم و عفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، شجاعت، ایفاء عہد، حسن معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی وبے تکلفی، تواضع وانکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘‘ یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اخلاق تھے۔ 3

اخلاق نبوت کا ایک مفصل وعظ ہم نے اپنی کتاب ’’حقانی تقریریں ‘‘ میں تحریر کر دیا ہے یہاں بھی ہم اخلاق نبوت کے ’’شجرۃ الخلد‘‘ کی چند شاخوں کے کچھ پھول پھل پیش کر دیتے ہیں تا کہ ہم اور آپ ان پر عمل کرکے اپنی اسلامی زندگی کو کامل و اکمل بنا کر عالم اسلام میں مکمل مسلمان بن جائیں اور دارالعمل سے دارالجزاء تک خداوند عَزَّوَجَلَّ کے شامیانہ رحمت میں اس کے اعلیٰ و افضل انعاموں کے میٹھے میٹھے پھل کھاتے رہیں ۔ ’’واللّٰہ تعالٰی ھو الموفق و المعین۔ ‘‘

چونکہ تمام علمی و عملی اور اخلاقی کمالات کا دارومدار عقل ہی پر ہے اس لئے حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی عقل کے بارے میں بھی کچھ تحریر کر دینا انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہم یہاں صرف ایک حوالہ تحریر کرتے ہیں :

وہب بن منبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں نے اکہتر(۷۱) کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ جب سے دنیا عالم وجود میں آئی ہے اس وقت سے قیامت تک کے تمام انسانوں کی عقلوں کا اگر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی عقل شریف سے موازنہ کیا جائے تو تمام انسانوں کی عقلوں کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عقل شریف سے وہی نسبت ہو گی جو ایک ریت کے ذرے کو تمام دنیا کے ریگستانوں سے نسبت ہے۔ یعنی تمام انسانوں کی عقلیں ایک ریت کے ذرے کے برابر ہیں ا ور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی عقل شریف تمام دنیا کے ریگستانوں کے برابر ہے۔اس حدیث کو ابو نعیم محدث نے حلیہ میں روایت کیا اور محدث ابن عساکر نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ 4

(زرقانی ج۴ ص۲۵۰ و شفاء شریف ج۱ ص۴۲)