ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

اس لشکر کا دوسرا نام ’’سریہ اُسامہ‘‘ بھی ہے ۔یہ سب سے آخری فوج ہے جس کے روانہ کرنے کا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا۔ ۲۶ صفر ۱۱ھ دوشنبہ کے دن حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور دوسرے دن حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہ ما کو بلا کر فرمایا کہ میں نے تم کو اس فوج کا امیر لشکر مقرر کیا تم اپنے باپ کی شہادت گاہ مقام ’’اُبنٰی‘‘ میں جاؤ اور نہایت تیزی کے ساتھ سفر کرکے ان کفار پر اچانک حملہ کر دو تا کہ وہ لوگ جنگ کی تیاری نہ کر سکیں ۔ باوجود یکہ مزاج اقدس ناساز تھا مگر اسی حالت میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے جھنڈا باندھا اور یہ نشانِ اسلام حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں دے کر ارشاد فرمایا :

’’اُغْزُ بِسْمِ اللّٰہِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَاتِلْ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ‘‘

اﷲ کے نام سے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو اور کافروں کیساتھ جنگ کرو۔

حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت بریدہ بن الحضیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو علمبردار بنایا اور مدینہ سے نکل کرایک کوس دور مقام ’’جرف‘‘ میں پڑاؤ کیا تا کہ وہاں پورا لشکر جمع ہو جائے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے تمام معززین کو بھی اس لشکر میں شامل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ بعض لوگوں پر یہ شاق گزرا کہ ایسا لشکر جس میں انصار و مہاجرین کے اکابر و عمائد موجود ہیں ایک نو عمر لڑکا جس کی عمر بیس برس سے زائد نہیں کس طرح امیر لشکر بنا دیا گیا؟ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس اعتراض کی خبر ملی تو آپ کے قلب نازک پر صدمہ گزرا اور آپ نے علالت کے باوجود سر میں پٹی باندھے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر منبر پر ایک خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں نے اُسامہ کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کی ہے تو تم لوگوں نے اس سے قبل اس کے باپ کے سپہ سالار ہونے پر بھی طعنہ زنی کی تھی حالانکہ خدا کی قسم! اس کاباپ(زید بن حارثہ)سپہ سالار ہونے کے لائق تھااور اس کے بعد اس کا بیٹا (اُسامہ بن زید) بھی سپہ سالار ہونے کے قابل ہے اوریہ میرے نزدیک میرے محبوب ترین صحابہ میں سے ہے جیسا کہ اس کا باپ میرے محبوب ترین اصحاب میں سے تھا لہٰذا اُسامہ(رضی اﷲ تعالٰی عنہ)کے بارے میں تم لوگ میری نیک وصیت کو قبول کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہ خطبہ دے کرمکان میں تشریف لے گئے اور آپ کی علالت میں کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا۔

حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ حکم نبوی کی تکمیل کرتے ہوئے مقام جرف میں پہنچ گئے تھے اور وہاں لشکر اسلام کا اجتماع ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک عظیم لشکر تیار ہوگیا۔ ۱۰ربیع الاول ۱۱ھ کوجہادمیں جانے والے خواص حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے رخصت ہونے کے لئے آئے اور رخصت ہو کر مقام جرف میں پہنچ گئے۔ اس کے دوسرے دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی علالت نے اور زیادہ شدت اختیار کر لی۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مزاج پرسی اور رخصت ہونے کے لئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو دیکھا مگر ضعف کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے، بار بار دست مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور ان کے بدن پر اپنا مقدس ہاتھ پھیرتے تھے۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ اس سے میں نے یہ سمجھا کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے لئے دعا فرما رہے ہیں ۔اس کے بعد حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ رخصت ہو کر اپنی فوج میں تشریف لے گئے اور ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو کوچ کرنے کا اعلان بھی فرما دیا ۔اب سوار ہونے کے لئے تیاری کر رہے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالٰی عنہاکا فرستادہ آدمی پہنچا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نزع کی حالت میں ہیں ۔ یہ ہوش ربا خبر سن کر حضرت اُسامہ و حضرت عمر و حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم وغیرہ فوراً ہی مدینہ آئے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سکرات کے عالم میں ہیں اور اسی دن دوپہر کو یا سہ پہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا۔’’اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ ۔یہ خبر سن کر حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا لشکر مدینہ واپس چلا آیا مگر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہو گئے تو آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود ربیع الآخر کی آخری تاریخوں میں اس لشکرکوروانہ فرمایااورحضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ مقام ’’اُبنٰی‘‘ میں تشریف لے گئے اور وہاں بہت ہی خونریز جنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوا اور آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے باپ کے قاتل اور دوسرے کفار کو قتل کیااور بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔1

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۰۹ تا ص۴۱۱ و زرقانی ج۳ ص۱۰۷ تا ۱۱۲)


1المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، اخرالبعوث النبویۃ، ج۴، ص۱۴۷۔۱۵۲، ۱۵۵ملخصاًومدارج النبوت، قسم سوم، باب یازدہم، ج۲، ص۴۰۹، ۴۱۰ملخصاً

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

-: علالت کی ابتداء

-: وفات کا اثر

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت