اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

-: حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ان کے مولیٰ کے ان پرکروڑوں درود

ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام

پارہائے صحف غنچہائے قدس

اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام

اہل اسلام کی مادرانِ شفیق

بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نسبت مبارکہ کی و جہ سے ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئیں جن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعت شان کا بیان ہے۔ چنانچہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ 1 (احزاب)

اے نبی کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اﷲ سے ڈرو۔

دوسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ

وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ 2 (احزاب)

اور اس(نبی) کی بیویاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں ۔

یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مقدس بیویاں دو باتوں میں حقیقی ماں کے مثل ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کسی کا نکاح جائز نہیں ۔ دوم یہ کہ ان کی تعظیم و تکریم ہر امتی پر اسی طرح لازم ہے جس طرح حقیقی ماں کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ لیکن نظر اورخلوت کے معاملہ میں ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کا حکم حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ کا ارشاد ہے کہ

وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ 3 (احزاب)

جب نبی کی بیویوں سے تم لوگ کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔

مسلمان اپنی حقیقی ماں کو تو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کر سکتا ہے مگر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مقدس بیویوں سے ہر مسلمان کے لئے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں انکے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔

اسی طرح حقیقی ماں کے ماں باپ، لڑکوں کے نانی نانا اور حقیقی ماں کے بھائی بہن، لڑکوں کے ماموں اور خالہ ہوا کرتے ہیں مگر ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے ماں باپ امت کے نانی نانا اور ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے بھائی بہن امت کے ماموں خالہ نہیں ہوا کرتے۔

یہ حکم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ان تمام ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے لئے ہے جن سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نکاح فرمایا، چاہے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم و واجب الاحترام ہیں ۔ 4

(زرقانی جلد۳ ص۲۱۶)

ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کی تعداد اور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے مگر گیارہ اُمہات المؤمنین رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے ہی انتقال ہو گیا تھا مگر نو بیویاں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وفاتِ اقدس کے وقت موجود تھیں ۔

ان گیارہ اُمت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم و چراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں :

(۱) خدیجہ بنت خویلد(۲) عائشہ بنت ابوبکرصدیق(۳) حفصہ بنت عمرفاروق (۴)اُمِ حبیبہ بنت ابو سفیان(۵)اُمِ سلمہ بنت ابو امیہ(۶) سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ تعالٰی عنہن

اورچارازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں : (۱)زینب بنت جحش(۲) میمونہ بنت حارث(۳) زینب بنت خزیمہ ’’ام المساکین‘‘ (۴) جویریہ بنت حارث اور ایک بیوی یعنی صفیہ بنت حیی یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں ۔

اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔ 5

(زرقانی جلد۳ ص۲۱۸ تا ۲۱۹)

یہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سب سے پہلی رفیقۂ حیات ہیں ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ یہ خاندان قریش کی بہت ہی معزز اور نہایت ہی دولت مند خاتون تھیں ۔ ہم اِس کتاب کے تیسرے باب میں لکھ چکے ہیں کہ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی بنا پر انکو ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ انہوں نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اخلاق و عادات اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کو دیکھ کر خود ہی حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے نکاح کی رغبت ظاہر کی اور پھر باقاعدہ نکاح ہو گیا جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ علامہ ابن اثیر اور امام ذہبی کا بیان ہے کہ اس بات پر تمام اُمت کا اجماع ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر سب سے پہلے یہی ایمان لائیں اور ابتداء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا تھا ایسے کٹھن وقت میں صرف انہیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مونس حیات بن کر تسکین خاطر کا باعث تھی۔ انہوں نے اتنے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن من دھن سے بارگاہ نبوت میں اپنی قربانی پیش کی اس خصوصیت میں تمام ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن پر ان کو ایک خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ ولی الدین عراقی کا بیان ہے کہ قول صحیح اور مذہب مختار یہی ہے کہ امہات المؤمنین میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسب سے زیادہ افضل ہیں ۔

ان کے فضائل میں چند حدیثیں وارد بھی ہوئی ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے اورعرض کیا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا ہے۔ جب یہ آپ کے پاس آ جائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیں اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔ 6

(بخاری جلد۱ص۵۳۹ باب تزویج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )

امام احمد و ابو داؤد و النسائی، حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم و حضرت آسیہ ہیں۔ 7 (رضی اﷲ تعالٰی عنہن)

(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴)

اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی بہت زیادہ تعریف سنی تو انہیں غیرت آ گئی اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب تو اﷲ تعالٰی نے آپ کو ان سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ 8

(زرقانی جلد۳ ص۲۲۴)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بہت زیادہ ان کا ذکر ِخیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تھے توکچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑ جایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ ’’دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں ۔‘‘ میرا یہ جملہ سن کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں وہ تھیں انہیں کے شکم سے تو اﷲ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ 9

(بخاری جلد۱ ص۵۳۹ ذکر خدیجہ)

امام طبرانی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا۔ اس حدیث کو امام سہیلی نے بھی نقل فرمایا ہے۔ 10

(زرقانی جلد۳ص ۲۲۶)

حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاپچیس سال تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت گزاری سے سرفراز رہیں ، ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ معظمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ 11

(زرقانی جلد۳ ص۲۲۷ و اکمال فی اسماء الرجال ص۵۹۳)


-: حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہااور

-: حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا