ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

-: علالت کی ابتداء

-: وفات کا اثر

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینوں کے باغات وغیرہ کی آمدنیاں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے ا ور اپنی ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے سال بھر کے اخراجات اور فقراء و مساکین اور عام مسلمانوں کی حاجات میں صرف فرماتے تھے۔1

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۱۲ باب فی صفایا رسول اﷲ)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بعد حضرت عباس اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور بعض ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن چاہتی تھیں کہ ان جائیدادوں کو میراث کے طور پر وارثوں کے درمیان تقسیم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے ان لوگوں نے اس کی درخواست پیش کی مگر آپ اور حضرت عمر وغیرہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے ان لوگوں کو یہ حدیث سنا دی کہ ’’لَانُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ‘‘ 2

(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ ، باب فرض الخمس)

ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ مسلمانوں پر صدقہ ہے۔

اور اس حدیث کی روشنی میں صاف صاف کہہ دیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی وصیت کے بموجب یہ جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں ۔ لہٰذا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی مقدس زندگی میں جن مدآت و مصارف میں ان کی آمدنیاں خرچ فرمایا کرتے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے اصرار سے بنو نضیر کی جائیداد کا ان دونوں کو اس شرط پر متولی بنا دیا تھا کہ اس جائیداد کی آمدنیاں انہیں مصارف میں خرچ کرتے رہیں گے جن میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی اور ان دونوں حضرات نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بنو نضیر کی جائیداد تقسیم کرکے آدھی حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تولیت میں دے دی جائے اور آدھی کے متولی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رہیں مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس درخواست کو نا منظور فرما دیا۔3

(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ باب فی وصایا رسول اﷲ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ باب فرض الخمس)

لیکن خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے تک خلفاء ہی کے ہاتھوں میں رہیں حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس کو اپنی جاگیر بنا لی تھی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پھر وہی عملدرآمد جاری کر دیا جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے دور خلافت میں تھا۔4

(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۷ باب فی وصایا رسول اﷲ مطبوعہ نامی پریس)


1سنن ابی داود، کتاب الخراج والفیئ۔۔۔الخ، باب فی صفایا۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۹۶۳، ج۳، ص۱۹۳، ۱۹۴ملتقطاًومدارج النبوت، قسم چہارم، باب سوم، ج۲، ص۴۴۵ 2سنن ابی داود، کتاب الخراج ۔۔۔الخ، باب فی صفایا۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۹۶۳، ج۳، ص۱۹۳، ۱۹۴وصحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب مناقب قرابۃ۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۷۱۱۔۳۷۱۲، ج۲، ص۵۳۷، ۵۳۸وکتاب الفرائض، باب قول النبی لانورث۔۔۔الخ، الحدیث : ۶۷۲۵۔۶۷۲۶، ج۴، ص۳۱۳ملتقطاً 3سنن ابی داود، کتاب الخراج۔۔۔الخ، باب فی صفایا۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۹۶۳، ۲۹۶۴، ج۳، ص۱۹۳، ۱۹۵ 4سنن ابی داود، کتاب الخراج۔۔۔الخ، باب فی صفایا۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۹۷۲، ج۳، ص۱۹۸

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت