ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

-: علالت کی ابتداء

مرض کی ابتداء کب ہوئی؟ اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کتنے دنوں تک علیل رہے؟ اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ بہر حال ۲۰ یا ۲۲ صفر ۱۱ ھ کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جنۃ البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج اقدس ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی باری کا دن تھا۔1

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۱۷ و زرقانی ج۳ ص۱۱۰)

دوشنبہ کے دن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی علالت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے یہاں قیام فرمائیں ۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے سہارا دے کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے حجرۂ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ میرے مصلی پر امامت کریں ۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے پڑھائیں ۔

ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں ۔جب آپ غسل فرما چکے تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو مسجد میں لائے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی ۔آ پ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہا ور دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسلام بیان فرما کر انصار کے فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورۂ والعصر اور ایک آیت بھی تلاوت فرمائی۔2

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۵ و بخاری ج۲ ص۶۳۹)

گھر میں سات دینار رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے فرمایا کہ تم ان دیناروں کو لاؤ تا کہ میں ان دیناروں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دوں ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ذریعے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان دیناروں کو تقسیم کر دیا اور اپنے گھر میں ایک ذرہ بھربھی سونا یا چاندی نہیں چھوڑا۔3

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۴)

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ خاص وفات کے دن یعنی دو شنبہ کے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ مسجد سے متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا رُخِ انور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔4

(بخاری ج۲ ص۶۴۰ باب مرض النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وغیرہ)

اس کے بعد بار بار غشی طاری ہونے لگی۔ حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی زبان سے شدت غم میں یہ لفظ نکل گیا : ’’وَاکَرْبَ اَبَاہ‘‘ہائے رے میرے باپ کی بے چینی! حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی ! تمہارا باپ آج کے بعد کبھی بے چین نہ ہو گا۔5

(بخاری ج۲ ص۶۴۱ باب مرض النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

اس کے بعد بار بار آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہ فرماتے رہے کہ’’ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ ‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا کا انعام ہے اور کبھی یہ فرماتے کہ ’’اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی... ‘‘ خداوندا! بڑے رفیق میں اور ’’لَا اِلٰہَ اِلَا اﷲ ‘‘ بھی پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بے شک موت کے لئے سختیاں ہیں۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکہتی ہیں کہ تندرستی کی حالت میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ وفات کو قبول کریں یا حیاتِ دنیا کو۔جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ نے آخرت کو قبول فرما لیا۔6

(بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب آخر ماتکلم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ تازہ مسواک ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے سمجھا کہ مسواک کی خواہش ہے۔ انہوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست اقدس میں دے دی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا کہ سینۂ اقدس میں سانس کی گھرگھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں نے یہ الفاظ سنے کہ ’’اَلصَّلٰوۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ‘‘ نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال رکھو۔پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اتنے میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ ’’بَلِ الرَّفِیْقُ الْاَعْلٰی ‘‘(اب کوئی نہیں) بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔یہی الفاظ زبانِ اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس ہاتھ لٹک گئے اورآنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی قدسی روح عالَمِ قدس میں پہنچ گئی۔7

(اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)) اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔

(بخاری ج۲ ص۶۴۰ وص۶۴۱باب مرض النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

تاریخ وفات میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے لیکن اس پر تمام علماء سیرت کا اتفاق ہے کہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا بہر حال عام طور پر یہی مشہور ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ دوشنبہ کے دن تیسرے پہر آپ نے وصال فرمایا۔8

(واﷲ تعالٰی اعلم)


1المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی اتمامہ۔۔۔الخ، ج۱۲، ص۸۳ملخصاً ومدارج النبوت، قسم چہارم، باب اول، ج۲، ص۴۱۷ 2مدارج النبوت، قسم چہارم، باب دوم، ج۲، ص۴۲۵ ملخصاً وصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۴۲، ج۳، ص۱۵۵مختصراً وکتاب الاذان، باب من قام۔۔۔الخ، الحدیث : ۶۸۳، ج۱، ص۲۴۳ 3مدارج النبوت، قسم چہارم، باب دوم، ج۲، ص۴۲۴ملخصاً 4صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۴۸، ج۳، ص۱۵۶وکتاب الاذان، باب اھل العلم والفضل۔۔۔الخ، الحدیث : ۶۸۰، ج۱، ص۲۴۲ملتقطاً 5صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۶۲، ج۳، ص۱۶۰ 6صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۳۵، ۴۴۳۷، ج۳، ص ۱۵۳، ۱۵۴ومدارج النبوت، قسم چہارم، باب دوم، جظ، ص۴۲۹مختصراً 7صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۳۸، ج۳، ص۱۵۴ومدارج النبوت، قسم چہارم، باب دوم، ج۲، ص۴۲۹ملخصاً 8الوفاء باحوال المصطفٰیمترجم، باب وقت وصال، ص۸۱۴ملخصاً

-: وفات کا اثر

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت