ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

-: علالت کی ابتداء

-: وفات کا اثر

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات سے حضرات صحابہ کرام اوراہل بیت عظام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا؟ اور اہل مدینہ کا کیا حال ہو گیا؟ اس کی تصویر کشی کے لئے ہزاروں صفحات بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ شمع نبوت کے پروانے جو چند دنوں تک جمال نبوت کادیدار نہ کرتے تو ان کے دل بے قرار اور ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں ۔ ظاہر ہے کہ ان عاشقانِ رسول پر جان عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دائمی فراق کا کتنا روح فرسا اورکس قدر جانکاہ صدمہ عظیم ہوا ہو گا؟ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم بلامبالغہ ہوش و حواس کھو بیٹھے، ان کی عقلیں گم ہو گئیں ، آوازیں بند ہو گئیں اور وہ اس قدر مخبوط الحواس ہو گئے کہ ان کے لئے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گیا کہ کیا کہیں ؟ اور کیا کریں ؟ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ پر ایسا سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر کسی سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کسی کی کچھ سنتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ رنج و ملال میں نڈھال ہو کر اس طرح بیٹھ رہے کہ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قلب پر ایسا دھچکا لگا کہ وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔1

حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اس قدر ہوش و حواس کھو بیٹھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ لی اور ننگی تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں اِس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔2

حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکا بیان ہے کہ وفات کے بعد حضرت عمر و حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہمااجازت لے کر مکان میں داخل ہوئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ بہت ہی سخت غشی طاری ہوگئی ہے۔ جب وہ وہاں سے چلنے لگے تو حضرت مغیرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کہ اے عمر! تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور تڑپ کر بولے کہ اے مغیرہ! تم جھوٹے ہو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اس وقت تک انتقال نہیں ہو سکتا جب تک دنیا سے ایک ایک منافق کا خاتمہ نہ ہو جائے۔3

مواہب لدنیہ میں طبری سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ ’’سُنح‘‘ میں تھے جو مسجد نبوی سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان کی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاوہیں رہتی تھیں ۔
چونکہ دو شنبہ کی صبح کو مرض میں کمی نظر آئی اور کچھ سکون معلوم ہوا اس لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو اجازت دے دی تھی کہ تم ’’سُنح‘‘ چلے جاؤ اور بیوی بچوں کو دیکھتے آؤ۔ 4

بخاری شریف وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ’’سُنح‘‘ سے آئے اور کسی سے کوئی بات نہ کہی نہ سنی۔ سیدھے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے حجرے میں چلے گئے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جھکے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک بوسہ دیا اور کہاکہ آپ اپنی حیات اور وفات دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہر گز خداوند تعالٰی آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔ آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس موت کے ساتھ وفات پا چکے۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہم سجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اے عمر! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے خطبہ دینا شروع کر دیاکہ 5

اما بعد! جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عَزَّوَجَلَّ کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ-وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن(۱۴۴) 6

(آل عمران)

اور محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اﷲ شکر ادا کرنے والوں کو ثواب دے گا۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔7

(بخاری ج۱ ص۱۶۶ باب الدخول علی ا لمیت الخ و مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۳)

حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی زبان سے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ واقعی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اضطراب کی حالت میں ننگی شمشیر لے کر جو اعلان کرتے پھرتے تھے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال نہیں ہوا اس سے رجوع کیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کہتے ہیں کہ گویا ہم پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس آیت کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے خطبہ نے اس پردہ کو اٹھا دیا۔8

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۴)


1مدارج النبوت، قسم سوم، باب دوم، ج۲، ص۴۳۲ملخصاً والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی اتمامہ۔۔۔الخ، ج۱۲، ص۱۴۲، ۱۴۳ 2مدارج النبوت، قسم سوم، باب دوم، ج۲، ص۴۳۲ 3لمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی اتمامہ۔۔۔الخ، ج۱۲، ص۱۳۹ 4المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی اتمامہ۔۔۔الخ، ج۱۲، ص۱۳۳، ۱۳۴ 5صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت۔۔۔الخ، الحدیث : ۱۲۴۱، ۱۲۴۲، ج۱، ص۴۲۱ملخصاً 6پ۴، ال عمرٰن : ۱۴۴ 7صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت۔۔۔الخ، الحدیث : ۱۲۴۱، ۱۲۴۲، ج۱، ص۴۲۱ 8مارج النبوت، قسم چھارم، باب دوم، ج۲، ص۴۳۴

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت