ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

-: علالت کی ابتداء

-: وفات کا اثر

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ان متروکہ سامانوں کے علاوہ بعض یادگاری تبرکات بھی تھے جن کو عاشقانِ رسول فرطِ عقیدت سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ کئے ہوئے تھے اور ان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ موئے مبارک، نعلین شریفین اور ایک لکڑی کا پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑاہوا تھا حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔1

(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَالخ)

اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے پاس تھا جن کو وہ بطورتبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں ۔ چنانچہ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وفات پائی۔2

(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک تلوار جس کا نام ’’ذوالفقار‘‘ تھا حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس تھی ان کے بعد ان کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ یہ تلوار کربلا میں حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس تھی۔ اس کے بعد ان کے فرزند و جانشین حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس رہی۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالٰی عنہ یزیدبن معاویہ کے پاس سے رخصت ہو کر مدینہ تشریف لائے تو مشہور صحابی حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کو کوئی حاجت ہو یا میرے لائق کوئی کار خدمت ہو تو آپ مجھے حکم دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں ۔ آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا مجھے کوئی حاجت نہیں پھر حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے یہ گزارش کی کہ آپ کے پاس رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جو تلوار (ذوالفقار) ہے کیا آپ وہ مجھے عنایت فرما سکتے ہیں ؟ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یزید کی قوم آپ پر غالب آ جائے اور یہ تبرک آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے اور اگر آپ نے اس مقدس تلوار کو مجھے عطا فرما دیا تو خدا کی قسم! جب تک میری ایک سانس باقی رہے گی ان لوگوں کی اس تلوار تک رسائی بھی نہیں ہو سکتی مگر حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس مقدس تلوار کو اپنے سے جدا کرنا گوارا نہیں فرمایا۔3

(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی انگوٹھی ا ور عصائے مبارک پر جانشین ہونے کی بنا پر خلفائے کرام حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہم اپنے اپنے دور خلافت میں قابض رہے مگر انگوٹھی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر کر ضائع ہو گئی۔ اس کنوئیں کا نام ’’بیراریس‘‘ ہے جس کو لوگ ’’بیرخاتم‘‘ بھی کہتے ہیں ۔4

(بخاری ج۲ ص۸۷۲ باب خاتم الفضہ)

اسی قسم کے دوسرے اور بھی تبرکات نبویہ ہیں جو مختلف صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے پاس محفوظ تھے جن کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں جا بجا متفرق طور پر مذکور ہے اور ان مقدس تبرکات سے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کو اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ ان کو اپنی جانوں سے بھی زیاد ہ عزیزسمجھتے تھے۔


1صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ماذکرمن درع النبی۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۱۰۷، ۳۱۰۹، ج۲، ص۳۴۳، ۳۴۴ملخصاً وفتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ماذکرمن درع النبی۔۔۔الخ، تحت الحدیث : ۳۱۰۷، ۳۱۰۹، ج۶، ص۱۷۳، ۱۷۴ملتقطاً 2صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ماذکرمن درع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۱۰۸، ج۲، ص۳۴۳ 3صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ماذکرمن درع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۱۱۰، ج۲، ص۳۴۴ 4صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب خاتم الفضۃ، الحدیث : ۵۸۶۶، ج۴، ص۶۸