ہجرت کا گیارہواں سال

-: جیش اُسامہ

-: وفاتِ اقدس

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بہت پہلے سے اپنی وفات کا علم حاصل ہو گیا تھا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو یہ فرما کر رخصت فرمایا تھا : ’’شاید اس کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں گا۔‘‘1

اسی طرح ’’غدیر خم‘‘ کے خطبہ میں اسی اندازسے کچھ اسی قسم کے الفاظ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے تھے اگرچہ ان دونوں خطبات میں لفظ لعل (شاید) فرماکر ذرا پردہ ڈالتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دی مگر حجۃ الوداع سے واپس آ کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں ’’لَعَلَّ‘‘(شاید)کا لفظ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ صاف صاف اور یقین کے ساتھ اپنی وفات کی خبر سے لوگوں کو آگاہ فرما دیا۔

چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو(تم سے پہلے وفات پانے والا) ہوں اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔2

(بخاری کتاب الحوض ج۲ ص۹۷۵)

اس حدیث میں ’’ اِنِّیْ فَرَطٌ لَّکُمْ ‘‘ فرمایا یعنی میں اب تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں ۔

یہ قصہ مرض وفات شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن اس قصہ کو بیان فرمانے کے وقت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اسکا یقینی علم حاصل ہو چکا تھا کہ میں کب اور کس وقت دنیا سے جانے والا ہوں اور مرض وفات شروع ہونے کے بعد تو اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو صاف صاف لفظوں میں بغیر ’’شاید‘‘ کا لفظ فرماتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دے دی۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ اپنے مرض وفات میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بلایا اور چپکے چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ روپڑیں ۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن نے اس کے بارے میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤگی تو میں ہنس پڑی۔3

(بخاری باب مرض النبی ج۲ ص۶۳۸)

بہر حال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات کے وقت کا علم حاصل ہو چکا تھا کیوں نہ ہو کہ جب دوسرے لوگوں کی وفات کے اوقات سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اﷲ عزوجل نے آگاہ فرما دیا تھا تو اگر خداوند علام الغیوب کے بتادینے سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنی وفات کے وقت کا قبل از وقت علم ہو گیا تو اس میں کو نسا استبعاد ہے؟ اﷲ تعالٰی نے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو علم ماکان و مایکون عطا فرمایا۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا علم عطا فرما کر آپ کو دنیا سے اٹھایا۔چنانچہ اس مضمون کو ہم نے اپنی کتاب ’’قرآنی تقریریں ‘‘ میں مفصل تحریر کردیا ہے۔


1تاریخ الطبری، حجۃالوداع، ج۲، ص۳۴۴ 2صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الحوض، الحدیث : ۶۵۹۰، ج۴، ص۲۷۰ 3صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث : ۴۴۳۳، ۴۴۳۴، ج۳، ص۱۵۳

-: علالت کی ابتداء

-: وفات کا اثر

-: تجہیز و تکفین

-: نماز جنازہ

-: قبر انور

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ترکہ

-: زمین

-: سواری کے جانور

-: ہتھیار

-: ظروف و مختلف سامان

-: تبرکاتِ نبوت