ہجرت کا ساتواں سال

-: غزوۂ ذات القرد

-: جنگ خیبر

-: غزوۂ خیبر کب ہوا ؟

-: جنگ خیبر کا سبب

-: مسلمان خیبر چلے

-: یہودیوں کی تیاری

-: محمود بن مسلمہ شہید ہوگئے

-: اسود راعی کی شہادت

-: اسلامی لشکر کا ہیڈ کوارٹر

-: حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور مرحب کی جنگ

-: خیبر کا انتظام

-: حضرت صفیہ کا نکاح

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو زہر دیا گیا

-: حضرت جعفر رضی اﷲ تعالٰی عنہ حبشہ سے آگئے

-: خیبر میں اعلان مسائل

-: وادی القری کی جنگ

-: فدک کی صلح

-: عمرۃ القضاء

چونکہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ آئندہ سال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مکہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ اس دفعہ کے مطابق ماہ ذوالقعدہ ۷ھ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کاعزم فرمایا اور اعلان کرا دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں ۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی۔

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو چونکہ کفارمکہ پر بھروسا نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بوقت روانگی حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مدینہ پر حاکم بنا دیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سوگھوڑوں پر سوار تھے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ جب کفارمکہ کو خبر لگی کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورت حال کی تحقیقات کے لئے ’’مرالظہران‘‘ تک بھیجا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جو اسپ سواروں کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفارقریش مطمئن ہوگئے۔

چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب مقام ’’یاجج‘‘ میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا ۔اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے مجمع کے ساتھ ’’لبیک‘‘ پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے جب مکہ میں داخل ہونے لگے تو دربار نبوت کے شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے رجز کے یہ اشعار جوش و خروش کے ساتھ بلندآواز سے پڑھتے جاتے تھے کہ ؎

خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ

اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ

اے کافروں کے بیٹو!سامنے سے ہٹ جاؤ۔ آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔

ضَرْبًا یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہٖ

وَیُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ

ہم تلوار کا ایسا وار کریں گے جو سر کو اس کی خوابگاہ سے الگ کردے اور دوست کی یاد اس کے دوست کے دل سے بھلا دے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ٹوکا اور کہا کہ اے عبداللہ بن رواحہ!رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے آگے آگے اور اللہ تَعَالٰی کے حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو؟ تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عمر !رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو چھوڑ دو۔ یہ اشعار کفار کے حق میں تیروں سے بڑھ کر ہیں۔1

(شمائل ترمذی ص ۱۷ و زرقانی ج ۲ ص ۲۵۵ تا ص ۲۵۷ )

جب رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم خاص حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفارقریش مارے جلن کے اس منظر کی تاب نہ لاسکے اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ مگر کچھ کفار اپنے دارالندوہ(کمیٹی گھر) کے پاس کھڑے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بادۂ توحید و رسالت سے مست ہونے والے مسلمانوں کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے؟ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر ’’اضطباع‘‘ کرلیا۔ یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلاکر اور خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ اس کو عربی زبان میں ’’رمل‘‘ کہتے ہیں ۔ چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں ’’رمل‘‘ کرتا ہے۔2

(بخاری ج۱ ص ۲۱۸ باب کیف کان بدء الرمل )


1المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب عمرۃ القضاء، ج۳، ص۳۱۴۔۳۱۸ 2المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب عمرۃ القضاء، ج۳، ص۳۱۶۔۳۲۳ملتقطاً

-: حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی صاحبزادی

-: حضرت میمونہ کا نکاح