اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

مکہ والوں کے عناد اور سرکشی کو دیکھتے ہوئے جب حضور رَحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوسی نظر آئی تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے تبلیغ اسلام کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا رُخ کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ’’طائف‘‘ کا بھی سفر فرمایا۔ اس سفر میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے غلام حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ طائف میں بڑے بڑے اُمراء اور مالدار لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں ’’عمرو‘‘ کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین بھائی تھے۔ عبدیالیل۔مسعود۔ حبیب۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ طائف کے شریر غنڈوں کو ابھار دیا کہ یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ برا سلوک کریں ۔چنانچہ لچوں لفنگوں کا یہ شریر گروہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر ٹوٹ پڑا اور یہ شرارتوں کے مجسمے آپ پر پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے مقدس پاؤں زخموں سے لہولہان ہو گئے۔ 1

اور آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم زخموں سے بے تاب ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ ظالم انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے اورجب آپ چلنے لگتے تو پھر آپ پر پتھروں کی بارش کرتے اور ساتھ ساتھ طعنہ زنی کرتے۔ گالیاں دیتے۔ تالیاں بجاتے۔ ہنسی اڑاتے۔ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوڑ دوڑ کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بچاتے تھے یہاں تک کہ وہ بھی خون میں نہا گئے اور زخموں سے نڈھال ہو کر بے قابو ہو گئے۔ یہاں تک کہ آخر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام ’’عداس‘‘ کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بسم اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایاتو عداس تعجب سے کہنے لگا کہ اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ عداس نے کہا کہ میں ’’شہر نینویٰ‘‘ کا رہنے والا ہوں ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ حضرت یونس بن متی عَلَیْہِ السَّلام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح خدا عَزَّوَجَلَّ کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ 2

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۰۰)

اسی سفر میں جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مقام ’’نخلہ‘‘ میں تشریف فرما ہوئے اور رات کو نماز تہجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے تو ’’ نصیبین‘‘ کے جنوں کی ایک جماعت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب جن مسلمان ہو گئے ۔پھر ان جنوں نے لوٹ کر اپنی قوم کو بتایا تو مکہ مکرمہ میں جنوں کی جماعت نے فوج در فوج آ کر اسلام قبول کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۂ جن کی ابتدائی آیتوں میں خداوند عالم نے اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ 3

(زرقانی ج۱ ص۳۰۳)

مقام نخلہ میں حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے چند دنوں تک قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مقام ’’حراء‘‘ میں تشریف لائے اور قریش کے ایک ممتاز سردار مطعم بن عدی کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ کیا تم مجھے اپنی پناہ میں لے سکتے ہو؟ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص ان سے حمایت اور پناہ طلب کرتاتو وہ اگرچہ کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو وہ پناہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ مطعم بن عدی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ تم لوگ ہتھیار لگا کر حرم میں جاؤ اور مطعم بن عدی خود گھوڑے پر سوار ہو گیااور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے ساتھ مکہ لایااور حرم کعبہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا اور مجمع عام میں اعلان کر دیاکہ میں نے محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )کو پناہ دی ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اطمینان کے ساتھ حجر اسود کو بوسہ دیا اور کعبہ کا طواف کرکے حرم میں نماز ادا کی اور مطعم بن عدی اور اس کے بیٹوں نے تلواروں کے سائے میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو آپ کے دولت خانہ تک پہنچا دیا۔ 4

(زرقانی ج۱ ص۳۰۶)

اس سفر کے مدتوں بعد ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے حضورِاقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کیا جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں اے عائشہ! رضی اللہ تعالٰی عنہاوہ دن میرے لئے جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار ’’ عبد یالیل‘‘ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوت اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور اہل طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا۔ میں اس رنج و غم میں سرجھکائے چلتا رہایہاں تک کہ مقام ’’قرن الثعالب‘‘ میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے۔وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اس بادل میں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اﷲ تعالٰی نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے ۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکے عرض کرنے لگا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )اﷲ تعالٰی نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ’’اخشبین‘‘(ابو قبیس اورقعیقعان)دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتاہوں ۔ یہ سن کر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اﷲ تعالٰی ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اﷲ تعالٰی کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔ 5

(بخاری باب ذکر الملائکہ ج۱ ص۴۵۸ وزُرقانی ج۱ ص۲۹۷)


-: قبائل میں تبلیغ اسلام