اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

کفارِ مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کوقتل تونہیں کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے کاہن، ساحر، شاعر، مجنون ہونے کا ہرکوچہ و بازار میں زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیاجو راستوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ، کا شور مچا مچا کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفار مکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلمکے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک دم سنگدل کافر عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے گلے میں چادر کا پھندہ ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا دم گھٹنے لگا۔ چنانچہ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بے قرار ہو کر دوڑ پڑے اور عقبہ بن ابی معیط کو دھکا دے کر دفع کیا اور یہ کہا کہ کیا تم لوگ ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ ’’میرا رب اللہ ہے۔‘‘ اس دھکم دھکا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کفار کو مارا بھی اور کفار کی مار بھی کھائی۔ 1

(زرقانی ج۱ ص۲۵۲و بخاری ج۱ ص۵۴۴)

کفار آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے معجزات اور روحانی تاثیرات و تصرفات کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو سب سے بڑا جادو گر کہتے۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے(جبریل) اور قرآن کو نازل فرمانے والے(اللہ تعالٰی) کو اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو گالیاں دیتے۔ اور گلی کوچوں میں پہرہ بٹھا دیتے کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے اور تالیاں پیٹ پیٹ کر اور سیٹیاں بجا بجا کر اس قدر شوروغل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب کہیں کسی عام مجمع میں یا کفار کے میلوں میں قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا چچاابولہب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پیچھے چلا چلا کر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو! یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے، یہ دیوانہ ہو گیا ہے، تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو۔

(معاذ الله)

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم’’ذوالمجاز‘‘ کے بازار میں دعوت اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر دھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو! اس کے فریب میں مت آنا، یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عزیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔ 2

(مسند امام احمد ج۴ وغیرہ)s

اسی طرح ایک مرتبہ جب کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے عین حالتِ نماز میں ابو جہل نے کہا کہ کوئی ہے؟ جو آل فلاں کے ذبح کیے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں ان کے کندھوں پر رکھ دے۔ یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط کافر اٹھااور اس اوجھڑی کو لا کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دوش مبارک پر رکھ دیا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سجدہ میں تھے دیر تک اوجھڑی کندھے اور گردن پر پڑی رہی اور کفار ٹھٹھا مار مار کر ہنستے رہے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گر گر پڑتے رہے آخر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہاجو ان دنوں ابھی کمسن لڑکی تھی آئیں اور ان کافروں کو برا بھلا کہتے ہوئے اس اوجھڑی کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دوش مبارک سے ہٹا دیا ۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قلب مبارک پر قریش کی اس شرارت سے انتہائی صدمہ گزرا اور نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ یہ دعا مانگی کہ ’’ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ‘‘ ‘ یعنی اے اللہ ! تو قریش کو اپنی گرفت میں پکڑ لے، پھر ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عمارہ بن ولید کا نام لے کر دعا مانگی کہ الٰہی! تو ان لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے ان سب کافروں کو جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ان کی لاشیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں ۔ پھر ان سب کفار کی لاشوں کو نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیااور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان گڑھے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔ 3

(بخاری ج۱ ص۷۴ باب المرأۃ تطرح الخ)

جو کفار مکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی دشمنی اور ایذارسانی میں بہت زیادہ سرگرم تھے۔ ان میں سے چند شریروں کے نام یہ ہیں ۔

چند شریر کفار

(۱)ابو لہب(۲)ابو جہل(۳)اسود بن عبد یغوث(۴)حارث بن قیس بن عدی (۵)ولید بن مغیرہ(۶)امیہ بن خلف(۷) ابی بن خلف(۸)ابو قیس بن فاکہہ (۹) عاص بن وائل(۱۰) نضربن حارث(۱۱)منبہ بن الحجاج(۱۲) زہیر بن ابی امیہ(۱۳)سائب بن صیفی(۱۴)عدی بن حمرا (۱۵)اسود بن عبدالاسد (۱۶) عاص بن سعید بن العاص(۱۷)عاص بن ہاشم(۱۸)عقبہ بن ابی معیط (۱۹)حکم بن ابی العاص۔ یہ سب کے سب حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پڑوسی تھے اور ان میں سے اکثر بہت ہی مالدار اور صاحب اقتدار تھے اور دن رات سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ایذارسانی میں مصروف کار رہتے تھے۔

(نعوذباللہ من ذالک)


-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام