اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

تمام مہاجرین نہایت امن و سکون کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے۔ مگر کفار مکہ کو کب گوارا ہو سکتا تھا کہ فرزندان توحید کہیں امن و چین کے ساتھ رہ سکیں ۔ ان ظالموں نے کچھ تحائف کے ساتھ ’’عمرو بن العاص‘‘ اور ’’عمارہ بن ولید‘‘ کو بادشاہ حبشہ کے دربار میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔ان دونوں نے نجاشی کے دربار میں پہنچ کر تحفوں کا نذرانہ پیش کیا اور بادشاہ کو سجدہ کرکے یہ فریاد کرنے لگے کہ اے بادشاہ! ہمارے کچھ مجرم مکہ سے بھاگ کر آپ کے ملک میں پناہ گزین ہو گئے ہیں ۔ آپ ہمارے ان مجرموں کو ہمارے حوالہ کر دیجیے ۔یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا ۔اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بھائی حضرت جعفر مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گفتگو کے لئے آگے بڑھے اور دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کو سجدہ نہیں کیابلکہ صرف سلام کرکے کھڑے ہو گئے۔ درباریوں نے ٹوکا تو حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے میں بادشاہ کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ 1

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۸۸)

اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے دربار شاہی میں اس طرح تقریر شروع فرمائی کہ

’’اے بادشاہ!ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے ۔شرک و بت پرستی کرتے تھے۔ لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، ظلم و ستم اور طرح طرح کی بدکاریوں اور بداعمالیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تَعَالٰی نے ہماری قوم میں ایک شخص کو اپنا رسول بنا کر بھیجا جس کے حسب و نسب اور صدق و دیانت کو ہم پہلے سے جانتے تھے، اس رسول نے ہم کو شرک و بت پرستی سے روک دیا اور صرف ایک خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیا اور ہر قسم کے ظلم و ستم اور تمام برائیوں اور بدکاریوں سے ہم کو منع کیا۔ ہم اس رسول پر ایمان لائے اور شرک و بت پرستی چھوڑ کر تمام برے کاموں سے تائب ہو گئے۔ بس یہی ہمارا گناہ ہے جس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ان لوگوں نے ہمیں اتنا ستایا کہ ہم اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر آپ کی سلطنت کے زیر سایہ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اب یہ لوگ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم پھر اسی پرانی گمراہی میں واپس لوٹ جائیں ۔‘‘

حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی تقریر سے نجاشی بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ کے سفیر عمرو بن العاص نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی پھینک دیا اور کہا کہ اے بادشاہ! یہ مسلمان لوگ آپ کے نبی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے بارے میں کچھ دوسرا ہی اعتقاد رکھتے ہیں جو آپ کے عقیدہ کے بالکل ہی خلاف ہے۔ یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سورۂ مریم کی تلاوت فرمائی۔ کلام ربانی کی تاثیر سے نجاشی بادشاہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ اس پر رقت طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کنواری مریم رضی اللہ تعالٰی عنہاکے شکم مبارک سے بغیر باپ کے خدا کی قدرت کا نشان بن کر پیدا ہوئے۔ نجاشی بادشاہ نے بڑے غور سے حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی تقریر کو سنا اور یہ کہا کہ بلاشبہ انجیل اور قرآن دونوں ایک ہی آفتاب ہدایت کے دو نور ہیں اور یقینا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم خدا کے وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے انجیل میں دی ہے اور اگر میں دستور سلطنت کے مطابق تخت شاہی پر رہنے کا پابند نہ ہوتاتو میں خود مکہ جا کر رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی جوتیاں سیدھی کرتااور ان کے قدم دھوتا۔ بادشاہ کی تقریر سن کر اس کے درباری جو کٹرقسم کے عیسائی تھے ناراض و برہم ہوگئے مگر نجاشی بادشاہ نے جوش ایمانی میں سب کو ڈانٹ پھٹکار کر خاموش کر دیا۔ اور کفار مکہ کے تحفوں کو واپس لوٹا کر عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو دربار سے نکلوا دیااور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میری سلطنت میں جہاں چاہو امن و سکون کے ساتھ آرام و چین کی زندگی بسر کرو۔ کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ 2

(زرقانی ج۱ ص۲۸۸)

واضح رہے کہ نجاشی بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ نجاشی بادشاہ کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا اور وہ حبشہ ہی میں مدفون بھی ہوئے مگر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔

حضرت ابوبکر اور ابن دغنہ

حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مقام ’’برک الغماد‘‘ میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار’’مالک بن د غنہ‘‘ راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں ؟ اے ابوبکر! کہاں چلے ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔ ابن د غنہ نے کہا کہ اے ابوبکر! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں ، مہمانانِ حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں ، خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں ، حق کے کاموں میں سب کی امداد و اعانت کرتے ہیں ۔ آپ میرے ساتھ مکہ واپس چلیے میں آپ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں ۔ ابن د غنہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو زبردستی مکہ واپس لایا اور تمام کفار مکہ سے کہہ دیا کہ میں نے ابوبکررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ لہٰذا خبردار! کوئی ان کو نہ ستائے کفار مکہ نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابوبکر اپنے گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں تاکہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ابن د غنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ اور حضرت ابوبکررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ چند دنوں تک اپنے گھرکے اندرقرآن پڑھتے رہے مگرحضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے جذبۂ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبود ان باطل لات و عزیٰ کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تَعَالٰی کی عبادت گھر کے اندر چھپ کرکی جائے۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنالی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن د غنہ کو مکہ بلایااور شکایت کی کہ ابوبکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں ۔ جس کو سننے کے لئے ان کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ یا تو وہ گھر میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا کہ اے ابوبکر!رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤں گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ اے ابن د غنہ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہوجاؤ مجھے اللہ تَعَالٰی کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں ۔ 3

(بخاری ج۱ ص۳۰۷ باب جوارابی بکر الصدیق)


-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام