اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا یک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبرِ اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداﷲ قریشی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ یہ مسلمان ہوچکے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔ حضرت نعیم بن عبداﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ کیوں ؟ اے عمر! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے؟ کہنے لگے کہ آج بانیٔ اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن ’’فاطمہ بنت الخطاب‘‘ اور تمہارے بہنوئی ’’سعید بن زید‘‘ بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں ۔ یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے ۔بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہااپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا۔ بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو ، تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہن کا خون آلودہ چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے ۔پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا۔ اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ ’’سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱) 1‘‘ اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ براندام ہونے لگا۔

جب اس آیت پر پہنچے کہ ’’اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ 2 ‘‘ تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲ ‘‘ یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت ارقم بن ابوارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بند پایا، کنڈی بجائی، اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے۔ لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صَصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے! تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا ؟حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا ۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے اﷲ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ نے لگے کہ یا رسول اﷲ! صَصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی؟ اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم !میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے۔ ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ماموں ابو جہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمان ہوگئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں ۔ یہ سن کر ابو جہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کرکے اعلان کر دیاکہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی۔ ابو جہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہایہاں تک کہ اﷲ تعالٰی نے اسلام کو غالب فرما دیا۔ 3

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۷۲)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام پر ذبح کیا۔ پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ ’’یَاجَلِیْحُ اَمْرٌ نَّجِیْحٌ رَجُلٌ فَصِیْحٌ یَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔‘‘ یہ آواز سن کر سب لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہر گز ہر گز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ ’’لیَاجَلِیْحُ اَمْرٌ نَّجِیْحٌ رَجُلٌ فَصِیْحٌ یَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه‘‘ یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی ’’لَآ اِلٰہ َاِلَّا اللّٰہُ‘‘ کہہ رہا ہے۔ حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کے فوراً ہی بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا ۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔ 4

(بخاری ج۱ ص۵۴۶ و زرقانی ج۱ ص۲۷۶ باب اسلام عمر)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب کفار مکہ نے بہت زیادہ ستایاتو عاص بن وائل سہمی نے بھی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنی پناہ میں لے لیا جو زمانۂ جاہلیت میں آپ کا حلیف تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کفار کی مار دھاڑ سے بچ گئے۔ 5

(بخاری باب اسلام عمر ج ۱ ص۵۴۵)


-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام