اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام

حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا طریقہ تھا کہ حج کے زمانے میں جب کہ دور دور کے عربی قبائل مکہ میں جمع ہوتے تھے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تمام قبائل میں دورہ فرما کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اسی طرح عرب میں جا بجا بہت سے میلے لگتے تھے جن میں دور دراز کے قبائل عرب جمع ہوتے تھے ۔ان میلوں میں بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ چنانچہ عکاظ، مجنہ، ذوالمجازکے بڑے بڑے میلوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے قبائل عرب کے سامنے دعوت اسلام پیش فرمائی۔ عرب کے قبائل بنو عامر، محارب، فزارہ، غسان، مرہ، سلیم، عبس، بنو نصر، کندہ، کلب، عذرہ، حضارمہ وغیرہ ان سب مشہور قبائل کے سامنے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اسلام پیش فرمایامگر آپ کا چچا ابو لہب ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابو لہب چلا چلا کر یہ کہتا کہ ’’ یہ دین سے پھر گیا ہے ، یہ جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ 1

(زرقانی ج۱ ص۳۰۹)

قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس قبیلہ کا سردار ’’مفروق‘‘ آپ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا کہ اے قریشی برادر! آپ لوگوں کے سامنے کونسا دین پیش کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے سورۂ انعام کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں ۔یہ سب لوگ آپ کی تقریر اور قرآنی آیتوں کی تاثیر سے انتہائی متاثر ہوئے لیکن یہ کہا کہ ہم اپنے اس خاندانی دین کو بھلا ایک دم کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ جس پر ہم برسہا برس سے کاربند ہیں ۔ اس کے علاوہ ہم ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر اوررعیت ہیں ۔ اور ہم یہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ ہم بادشاہ کسریٰ کے سوا کسی اور کے زیر اثر نہیں رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان لوگوں کی صاف گوئی کی تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ خیر، خدا اپنے دین کا حامی و ناصراور معین و مدد گار ہے۔ 2

(روض الانف بحوالہ سیرۃ النبی)