اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

جب ابو طالب مرض الموت میں مبتلا ہو گئے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے چچا! آپ کلمہ پڑھ لیجیے۔یہ وہ کلمہ ہے کہ اس کے سبب سے میں خدا کے دربار میں آپ کی مغفرت کے لئے اصرار کروں گا۔ اس وقت ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ ابو طالب کے پاس موجود تھے۔ ان دونوں نے ابو طالب سے کہا کہ اے ابو طالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کریں گے؟ اور یہ دونوں برابر ابو طالب سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے کلمہ نہیں پڑھابلکہ ان کی زندگی کا آخری قول یہ رہا کہ ’’میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔‘‘ یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے اس وقت تک دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک اﷲ تعالٰی مجھے منع نہ فرمائے گا۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہو گئی کہ

مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۱۳) 1

یعنی نبی اور مومنین کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ جب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ مشرکین جہنمی ہیں ۔ 2

(بخاری ج۱ ص۵۴۸ باب قصہ ابی طالب)


-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام