اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفار مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بلبلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفار مکہ ان مسلمانوں کو دم زدن میں قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں کے جوش انتقام کا نشہ نہیں اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں۔ اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفار مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی سزاؤں اور ایذا رسانیوں کے ساتھ ستاتے تھے۔ مگر خدا کی قسم! شراب توحید کے ان مستوں نے اپنے استقلال و استقامت کا وہ منظر پیش کر دیا کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر اٹھا اٹھا کر حیرت کے ساتھ ان بلاکشانِ اسلام کے جذبۂ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں ۔ سنگدل، بے رحم اور درندہ صفت کافروں نے ان غریب و بیکس مسلمانوں پر جبرو اکراہ اور ظلم و ستم کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا مگر ایک مسلمان کے پائے استقامت میں بھی ذرہ برابر تزلزل نہیں پیدا ہوااور ایک مسلمان کا بچہ بھی اسلام سے منہ پھیر کر کافر و مرتد نہیں ہوا۔

کفار مکہ نے ان غرباء مسلمین پر جو روجفاکاری کے بے پناہ اندوہناک مظالم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فرساء اور جاں سوز عذابوں میں مبتلا کیا کہ اگر ان مسلمانوں کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جب کہ وہاں کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے۔ ان مسلمانوں کی پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کرکے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں لوہے کو آگ میں گرم کرکے ان سے ان مسلمانوں کے جسموں کو داغتے، پانی میں اس قدرڈبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ۔چٹائیوں میں ان مسلمانوں کو لپیٹ کر ان کی ناکوں میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔

حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ اس زمانے میں اسلام لائے جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت ارقم بن ابوارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ قریش نے ان کو بے حد ستایا۔ یہاں تک کہ کوئلے کے انگاروں پر ان کو چت لٹایا اور ایک شخص ان کے سینے پر پاؤں رکھ کر کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی اور رطوبت سے کوئلے بجھ گئے ۔برسوں کے بعد جب حضرت خباب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ واقعہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے بیان کیا تو اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی ۔پوری پیٹھ پر سفید سفید داغ دھبے پڑے ہوئے تھے ۔ اس عبرت ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ 1

(طبقات ابن سعد ج ۳ تذکرہ خباب)

حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کوجو امیہ بن خلف کافر کے غلام تھے۔ان کی گردن میں رسی باندھ کر کوچہ و بازار میں ان کو گھسیٹا جاتا تھا۔ ان کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی جاتی تھیں اور ٹھیک دوپہر کے وقت تیز دھوپ میں گرم گرم ریت پر ان کو لٹا کر اتنا بھاری پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا تھا کہ ان کی زبان باہر نکل آتی تھی۔ امیہ کافر کہتا تھا کہ اسلام سے باز آ جاؤ ورنہ اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے۔ مگر اس حال میں بھی حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا بلکہ زور زور سے ’’ اَحَد، اَحَد ‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ خدا ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ 2

(سیرت ابن ہشام ج۱ ص۳۱۷ تاص۳۱۸)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گرم گرم بالو پر چت لٹا کر کفار قریش اس قدر مارتے تھے کہ یہ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی سُمیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو اسلام لانے کی بنا پر ابو جہل نے ان کی ناف کے نیچے ایسا نیزہ مارا کہ یہ شہید ہوگئیں ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد حضرت یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی کفار کی مار کھاتے کھاتے شہید ہو گئے۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کفار مکہ اس قدر طرح طرح کی اذیت دیتے اور ایسی ایسی مار دھاڑ کرتے کہ یہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔ جب یہ ہجرت کرنے لگے تو کفار مکہ نے کہا کہ تم اپنا سارا مال و سامان یہاں چھوڑ کر مدینہ جا سکتے ہو۔ آپ خوشی خوشی دنیا کی دولت پر لات مار کر اپنی متاع ایمان کو ساتھ لے کر مدینہ چلے گئے۔ 3

حضرت ابوفکیہہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صفوان بن امیہ کافر کے غلام تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے ۔جب صفوان کو ان کے اسلام کا پتا چلا تو اس نے ان کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر ان کو گھسیٹا اور گرم جلتی ہوئی زمین پر ان کو چت لٹا کر سینے پر وزنی پتھر رکھ دیا جب ان کو کفار گھسیٹ کر لے جا رہے تھے راستہ میں اتفاق سے ایک گبریلا نظر پڑا۔ امیہ کافر نے طعنہ مارتے ہوئے کہا کہ ’’دیکھ تیرا خدا یہی تو نہیں ہے۔‘‘ حضرت ابو فکیہہ نے فرمایا کہ’’ اے کافر کے بچے! خاموش میرا اور تیرا خدا اللہ ہے۔‘‘ یہ سن کر امیہ کافر غضب ناک ہو گیا اور اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ ان کا دم نکل گیا۔

اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی اس قدر مارا جاتا تھا کہ ان کے جسم کی بوٹی بوٹی درد مند ہو جاتی تھی۔ 4

حضرت بی بی لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہاجو لونڈی تھیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب کفر کی حالت میں تھے اس غریب لونڈی کو اس قدر مارتے تھے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہااُف نہیں کرتی تھیں بلکہ نہایت جرأت و استقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر! اگر تم خدا کے سچے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا تم سے ضرور اس کا انتقام لے گا۔ 5

حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہاحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھرانے کی باندی تھیں ۔ یہ مسلمان ہوگئیں تو ان کو اس قدر کافروں نے مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں ۔ مگر خداوند تعالٰی نے حضورِاقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی دعا سے پھر ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرما دی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم)کے جادو کا اثر ہے۔ 6

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۷۰)

اسی طرح حضرت بی بی ’’نہدیہ‘‘ اور حضرت بی بی ام عبیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما بھی باندیاں تھیں ۔ اسلام لانے کے بعد کفار مکہ نے ان دونوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر بے پناہ اذیتیں دیں مگر یہ اللہ والیاں صبر و شکر کے ساتھ ان بڑ ی بڑی مصیبتوں کو جھیلتی رہیں اور اسلام سے ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ 7

حضرت یارغار مصطفیٰ ابوبکر صدیق با صفا رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کس کس طرح اسلام پر اپنی دولت نثار کی اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ آپ نے ان غریب و بے کس مسلمانوں میں سے اکثر کی جان بچائی۔ آپ نے حضرت بلال و عامر بن فہیرہ و ابو فکیہہ و لبینہ و زنیرہ و نہدیہ وام عنیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان تمام غلاموں کو بڑی بڑی رقمیں دے کر خریدااور سب کو آزاد کر دیااور ان مظلوموں کو کافروں کی ایذاؤں سے بچا لیا۔ 8

(زرقانی علی المواہب و سیرت ابن ہشام ج۱ ص۳۱۹)

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ جب دامن اسلام میں آئے تو مکہ میں ایک مسافر کی حیثیت سے کئی دن تک حرم کعبہ میں رہے ۔یہ روزانہ زور زور سے چلا چلا کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور روزانہ کفار قریش ان کو اس قدر مارتے تھے کہ یہ لہولہان ہو جاتے تھے اور ان دنوں میں آب زمزم کے سوا ان کو کچھ بھی کھانے پینے کو نہیں ملا۔ 9

(بخاری ج۱ ص۵۴۴ باب اسلام ابی ذر)

واضح رہے کہ کفار مکہ کا یہ سلوک صرف غریبوں اور غلاموں ہی تک محدود نہیں تھابلکہ اسلام لانے کے جرم میں بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں کو بھی ان ظالموں نے نہیں بخشا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ جو شہر مکہ کے ایک متمول اور ممتاز معززین میں سے تھے مگر ان کو بھی حرم کعبہ میں کفار قریش نے اس قدر مارا کہ ان کا سر خون سے لت پت ہو گیا۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ جو نہایت مالدار اور صاحب اقتدار تھے۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو غیروں نے نہیں بلکہ خود ان کے چچا نے ان کو رسیوں میں جکڑ کر خوب خوب مارا۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے رعب اور دبدبہ کے آدمی تھے مگر انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے جس سے ان کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کتنے جاہ و اعزاز والے رئیس تھے مگر جب ان کے اسلام کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پتا چلا تو ان کو رسی میں باندھ کر مارا اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی بہن حضرت بی بی فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہاکو بھی اس زور سے تھپڑ مارا کہ ان کے کان کے آویزے گر پڑے اور چہرے پر خون بہہ نکلا۔ 10


-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام