اعلانِ نبوت کے بعد

-: غار ِحراء

-: پہلی وحی

ایک دن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم’’غار حراء‘‘ کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔(یہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام تھے جو ہمیشہ خدا عَزَّوَجَلَّ کا پیغام اس کے رسولوں علیہم الصلاۃوالسلام تک پہنچاتے رہے ہیں ) فرشتے نے ایک دم کہا کہ ’’پڑھئیے‘‘ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں ’’پڑھنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے زور دار معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا کہ ’’ پڑھئیے‘‘ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا کہ ’’پڑھئیے‘‘ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے پھر وہی فرمایا کہ ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا کہ

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) 1

یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر نازل ہوئی۔ ان آیتوں کو یاد کرکے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے گھر تشریف لائے۔ مگراس واقعہ سے جو بالکل ناگہانی طور پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کوپیش آیا اس سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قلب مبارک پر لرزہ طاری تھا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کملی اڑھاؤ۔ مجھے کملی اڑھاؤ۔ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا خوف دور ہوا اور کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے غار میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیااور فرمایا کہ ’’مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ نہیں ، ہر گز نہیں ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خدا کی قسم! اللہ تَعَالٰی کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو رسوا نہیں کرے گا۔آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تورشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں ۔ دوسروں کا بار خوداٹھاتے ہیں ۔ خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کو عطا فرماتے ہیں ۔مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق و انصاف کی خاطر سب کی مصیبتوں اور مشکلات میں کام آتے ہیں ۔

اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہاآپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے چچا زاد بھائی ’’ورقہ بن نوفل‘‘ کے پاس لے گئیں ۔ ورقہ ان لوگوں میں سے تھے جو ’’موحد‘‘ تھے اور اہل مکہ کے شرک و بت پرستی سے بیزار ہو کر ’’نصرانی‘‘ ہو گئے تھے اور انجیل کا عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے۔ بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے ان سے کہا کہ بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ بتایئے ۔آپ نے کیا دیکھا ہے؟ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے غار حراء کا پورا واقعہ بیان فرمایا ۔یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تَعَالٰینے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے کہ کاش! میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اعلانِ نبوت کے زمانے میں تندرست جوان ہوتا۔ کاش !میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے باہر نکالے گی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے (تعجب سے)فرمایا کہ کیا مکہ والے مجھے مکہ سے نکال دیں گے تو ورقہ نے کہاجی ہاں !جو شخص بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی طرح نبوت لے کر آیا لوگ اس کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ ہو گئے۔

اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی اترنے کا سلسلہ بند ہو گیا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم وحی کے انتظار میں مضطرب اور بے قرار رہنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کہیں گھر سے باہر تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی نے ’’یا محمد‘‘ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھاتو یہ نظر آیا کہ وہی فرشتہ (حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام)جو غار میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قلب مبارک میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مکان پر آکر لیٹ گئے اور گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ ناگہاں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر سورہ ’’مدثر‘‘ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور رب تعالٰی کا فرمان اتر پڑا کہ

یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْﭪ(۲) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْﭪ(۳) وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْﭪ(۴) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْﭪ(۵) 2

(بخاری ج۱ص۳)

یعنی اے بالاپوش اوڑھنے والے کھڑے ہو جاؤ پھر ڈرسناؤاوراپنے رب ہی کی بڑائی بولواوراپنے کپڑے پاک رکھواوربتوں سے دور رہو۔

ان آیات کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو خداوند قدوس نے دعوتِ اسلام کے منصب پر مامور فرما دیا اور آپ خداوند تعالٰی کے حکم کے مطابق دعوت حق اور تبلیغ اسلام کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔


-: دعوت اسلام کا پہلا دور

-: دعوت اسلام کا دوسرا دور

-: دعوت اسلام کا تیسرا دور

-: رحمت عالم پر ظلم و ستم

-: مسلمانوں پر مظالم

-: کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں

-: قریش کا وفد ابو طالب کے پاس

-: ہجرت حبشہ ۵ نبوی

-: نجاشی

-: کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

-: حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

-: حضرت عمر کا اسلام

-: شعب ابی طالب ۷ نبوی

-: غم کا سال ۱۰ نبوی

-: ابو طالب کا خاتمہ

-: حضرت بی بی خدیجہ کی وفات

-: طائف وغیرہ کا سرفراز

-: قبائل میں تبلیغ اسلام