ہجرت کا پانچواں سال

-: غزوہ دُومۃ الجندل

-: غزوۂ مُریسیع

-: منافقین کی شرارت

-: حضرت جویریه رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے نکاح

-: واقعہ افک

اسی غزوہ سے جب رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مدینہ واپس آنے لگے تو ایک منزل پر رات میں پڑاؤ کیا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاایک بند ہودج میں سوار ہو کر سفر کرتی تھیں اور چند مخصوص آدمی اس ہودج کو اونٹ پر لادنے اور اتارنے کے لئے مقرر تھے، حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہالشکر کی روانگی سے کچھ پہلے لشکر سے باہر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئیں جب واپس ہوئیں تو دیکھا کہ ان کے گلے کا ہار کہیں ٹوٹ کر گر پڑا ہے وہ دوبارہ اس ہار کی تلاش میں لشکر سے باہر چلی گئیں اس مرتبہ واپسی میں کچھ دیر لگ گئی اور لشکر روانہ ہو گیاآپ کا ہودج لادنے والوں نے یہ خیال کرکے کہ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہاہودج کے اندر تشریف فرما ہیں ہودج کو اونٹ پر لاد دیااور پورا قافلہ منزل سے روانہ ہو گیاجب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہامنزل پر واپس آئیں تو یہاں کوئی آدمی موجود نہیں تھاتنہائی سے سخت گھبرائیں اندھیری رات میں اکیلے چلنا بھی خطرناک تھااس لئے وہ یہ سوچ کر وہیں لیٹ گئیں کہ جب اگلی منزل پر لوگ مجھے نہ پائیں گے تو ضرور ہی میری تلاش میں یہاں آئیں گے، وہ لیٹی لیٹی سوگئیں ایک صحابی جن کا نام حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالٰی عنہ تھاوہ ہمیشہ لشکر کے پیچھے پیچھے اس خیال سے چلا کرتے تھے تا کہ لشکر کا گرا پڑا سامان اٹھاتے چلیں وہ جب اس منزل پر پہنچے توحضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو دیکھا اور چونکہ پردہ کی آیت نازل ہونے سے پہلے وہ بارہا ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہاکو دیکھ چکے تھے اس لئے دیکھتے ہی پہچان لیا اور انہیں مردہ سمجھ کر’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ‘‘ پڑھااس آواز سے وہ جاگ اٹھیں حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوراً ہی ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر لیا اور خود اونٹ کی مہار تھام کر پیدل چلتے ہوئے اگلی منزل پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس پہنچ گئے۔ 1

منافقوں کے سردار عبداﷲ بن اُبی نے اس واقعہ کو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاپر تہمت لگانے کا ذریعہ بنا لیااور خوب خوب اس تہمت کا چرچاکیایہاں تک کہ مدینہ میں اس منافق نے اس شرمناک تہمت کو اس قدر اچھالا اور اتنا شوروغل مچایا کہ مدینہ میں ہر طرف اس افتراء اور تہمت کا چرچا ہونے لگااوربعض مسلمان مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے بھی اس تہمت کو پھیلانے میں کچھ حصہ لیا، حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اس شرانگیز تہمت سے بے حد رنج و صدمہ پہنچااور مخلص مسلمانوں کو بھی انتہائی رنج و غم ہواحضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہامدینہ پہنچتے ہی سخت بیمار ہو گئیں ، پردہ نشین تو تھیں ہی صاحب فراش ہو گئیں اور انہیں اس تہمت تراشی کی بالکل خبر ہی نہیں ہوئی گو کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی پاک دامنی کا پورا پورا علم و یقین تھامگر چونکہ اپنی بیوی کا معاملہ تھااس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی طرف سے اپنی بیوی کی براء ت اور پاکدامنی کا اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھااور وحی الٰہی کا انتظار فرمانے لگے اس درمیان میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے مخلص اصحاب سے اس معاملہ میں مشورہ فرماتے رہے تا کہ ان لوگوں کے خیالات کاپتاچل سکے۔ 2

(بخاری ج۲ ص۵۹۴)

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس تہمت کے بارے میں گفتگو فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں اس لئے کہ جب اﷲ تعالٰی کو یہ گوارا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے جسم اطہر پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے کیونکہ مکھی نجاستوں پر بیٹھتی ہے تو بھلا جو عورت ایسی برائی کی مرتکب ہو خداوند قدوس کب اور کیسے برداشت فرمائے گا کہ وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی زوجیت میں رہ سکے۔ 3

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) جب اﷲ تعالٰی نے آپ کے سایہ کوزمین پرنہیں پڑنے دیاتاکہ اس پرکسی کاپاؤں نہ پڑ سکے تو بھلا اس معبود برحق کی غیرت کب یہ گوارا کرے گی کہ کوئی انسان آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کے ساتھ ایسی قباحت کا مرتکب ہو سکے؟۔4حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ گزارش کی کہ یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )ایک مرتبہ آپ کی نعلین اقدس میں نجاست لگ گئی تھی تو اﷲ تعالٰی نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام کو بھیج کرآپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کوخبردی کہ آپ اپنی نعلین اقدس کو اتاردیں اس لئے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہامعاذاﷲ اگر ایسی ہوتیں تو ضرور اﷲ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر وحی نازل فرما دیتا کہ ’’آپ ان کو اپنی زوجیت سے نکال دیں ۔‘ 5

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اس تہمت کی خبر سنی تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بیوی!تو سچ بتا!اگر حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جگہ میں ہوتا تو کیا تو یہ گمان کر سکتی ہے کہ میں حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی حرم پاک کے ساتھ ایسا کر سکتا تھا؟ تو ان کی بیوی نے جواب دیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی جگہ میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی بیوی ہوتی تو خدا کی قسم! میں کبھی ایسی خیانت نہیں کر سکتی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاجو مجھ سے لاکھوں درجے بہتر ہے اورحضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بدر جہاتم سے بہتر ہیں بھلا کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایسی خیانت کر سکتے ہیں ؟ 6

(مدارک التنزیل مصری ج۲ ص۱۳۴ تا ۱۳۵)

بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس معاملہ میں حضرت علی اور اسامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہماسے جب مشورہ طلب فرمایا تو حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے برجستہ کہا کہ ’’ اَھْلُکَ وَلَا نَعْلَمُ اِلَّاخَیْرًا ‘‘ کہ یارسول اﷲ!( صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم انہیں اچھی ہی جانتے ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ جواب دیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اﷲ تعالٰی نے آپ پر کوئی تنگی نہیں ڈالی ہے عورتیں ان کے سوا بہت ہیں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان کے بارے میں ان کی لونڈی (حضرت بریرہ) سے پوچھ لیں وہ آپ سے سچ مچ کہہ دے گی۔ 7

حضرت بریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے جب آپ نے سوال فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے کہ میں نے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہامیں کوئی عیب نہیں دیکھا، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ابھی کمسن لڑکی ہیں وہ گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر کھا ڈالتی ہے۔ 8

پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہاسے دریافت فرمایاجو حسن و جمال میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے مثل تھیں تو انہوں نے قسم کھا کر یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ’’ اَحْمِیْ سَمْعِیْ وَ بَصَرِیْ وَاﷲ مَا عَلِمْتُ اِلَّاخَیْرًا ‘‘ میں اپنے کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں خداکی قسم! میں تو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو اچھی ہی جانتی ہوں۔ 9

(بخاری باب حدیث الافک ج۲ ص۵۹۶)

اس کے بعدحضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ایک دن منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے مجھے کون معذور سمجھے گا، یا میری مدد کرے گا جس نے میری بیوی پر بہتان تراشی کرکے میری دل آزاری کی ہے، ’’ وَاﷲ مَا عَلِمْتُ عَلٰی اَھْلِیْ اِلَّاخَیْرًا‘‘ خدا کی قسم! میں اپنی بیوی کو ہر طرح کی اچھی ہی جانتا ہوں ۔ ’’وَلَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ اِلَّا خَیْرًا‘‘ اور ان لوگوں (منافقوں ) نے (اس بہتان میں )ایک ایسے مرد(صفوان بن معطل) کا ذکر کیا ہے جس کو میں بالکل اچھا ہی جانتا ہوں ۔ 10

(بخاری ج۲ ص۵۹۵ باب حدیث الافک)

حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی برسرمنبر اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو حضرت عائشہ اور حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالٰی عنہ ما دونوں کی براء ت و طہارت اور عفت و پاک دامنی کا پورا پورا علم اور یقین تھااور وحی نازل ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ منافق جھوٹے اور اُم المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہاپاک دامن ہیں ورنہ آپ برسر منبر قسم کھا کر ان دونوں کی اچھائی کا مجمع عام میں ہر گز اعلان نہ فرماتے مگر پہلے ہی اعلان عام نہ فرمانے کی وجہ یہی تھی کہ اپنی بیوی کی پاکدامنی کا اپنی زبان سے اعلان کرنا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مناسب نہیں سمجھتے تھے، جب حد سے زیادہ منافقین نے شوروغوغا شروع کر دیا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے منبر پر اپنے خیال اقدس کا اظہار فرما دیامگر اب بھی اعلان عام کے لئے آپ کو وحی الٰہی کا انتظار ہی رہا۔

یہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسفر سے آتے ہی بیمار ہو کر صاحب فراش ہو گئی تھیں اس لئے وہ اس بہتان کے طوفان سے بالکل ہی بے خبر تھیں جب انہیں مرض سے کچھ صحت حاصل ہوئی اور وہ ایک رات حضرت اُم مسطح صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے ساتھ رفع حاجت کے لئے صحرا میں تشریف لے گئیں تو انکی زبانی انہوں نے اس دلخراش اور روح فرساخبر کو سنا۔ جس سے انہیں بڑا دھچکا لگااور وہ شدت رنج و غم سے نڈھال ہو گئیں چنانچہ ان کی بیماری میں مزید اضافہ ہو گیااور وہ دن رات بلک بلک کر روتی رہیں آخر جب ان سے یہ صدمہ جاں کاہ برداشت نہ ہوسکا تو وہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے اجازت لے کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں اور اس منحوس خبر کا تذکرہ اپنی والدہ سے کیا، ماں نے کافی تسلی و تشفی دی مگر یہ برابر لگاتار روتی ہی رہیں 11

اسی حالت میں ناگہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عائشہ!رضی اللہ تعالٰی عنہاتمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر اڑائی گئی ہے اگر تم پاک دامن ہو اور یہ خبر جھوٹی ہے تو عنقریب خداوند تعالٰی تمہاری براء ت کا بذریعہ وحی اعلان فرما دے گا۔ ورنہ تم توبہ و استغفار کر لوکیونکہ جب کوئی بندہ خدا سے توبہ کرتاہے اور بخشش مانگتا ہے تو اﷲ تعالٰی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی یہ گفتگو سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے آنسو بالکل تھم گئے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ آپ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا جواب دیجیے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو کیا جواب دوں ؟ پھر انہوں نے ماں سے جواب دینے کی درخواست کی تو ان کی ماں نے بھی یہی کہاپھر خود حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو یہ جواب دیا کہ لوگوں نے جو ایک بے بنیاد بات اڑائی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے اور کچھ لوگ اس کو سچ سمجھ چکے ہیں اس صورت میں اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک دامن ہوں تو لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اگر میں اس برائی کا اقرار کر لوں تو سب مان لیں گے حالانکہ اﷲ تعالٰی جانتاہے کہ میں اس الزام سے بری اور پاک دامن ہوں اس وقت میری مثال حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلام کے باپ (حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلام) جیسی ہے لہٰذا میں بھی وہی کہتی ہوں جو انہوں نے کہا تھا یعنی

فَصَبْرٌ جَمِیْلٌؕ-وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ(۱۸)12

یہ کہتی ہوئی انہوں نے کروٹ بدل کر منہ پھیر لیااور کہا کہ اﷲ تعالٰی جانتا ہے کہ میں اس تہمت سے بری اور پاک دامن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالٰی ضرور میری براءت کو ظاہر فرما دے گا۔13حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا جواب سن کر ابھی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا ہی ہوا تھا کہ ناگہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر نزول وحی کے وقت کی بے چینی شروع ہو گئی اور باوجودیکہ شدید سردی کا وقت تھامگر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بدن سے ٹپکنے لگے جب وحی اتر چکی توہنستے ہوئے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایاکہ اے عائشہ!رضی اللہ تعالٰی عنہاتم خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حمد کرو کہ اس نے تمہاری براء ت اور پاکدامنی کا اعلان فرما دیا اور پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے قرآن کی سورۂ نور میں سے دس آیتوں کی تلاوت فرمائی جو ’’اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ‘‘ سے شروع ہو کر’’ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰)‘‘ پر ختم ہوتی ہیں ۔

ان آیات کے نازل ہو جانے کے بعد منافقوں کا منہ کالا ہو گیا اور حضرت ام المؤمنین بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی پاک دامنی کا آفتاب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اس طرح چمک اٹھا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے دلوں کی دنیا میں نور ایمان سے اجالا ہو گیا۔ 14

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضرت مسطح بن اثاثہ پر بڑا غصہ آیایہ آپ کے خالہ زاد بھائی تھے اور بچپن ہی میں ان کے والد وفات پا گئے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی پرورش بھی کی تھی اور ان کی مفلسی کی وجہ سے ہمیشہ آپ ان کی مالی امداد فرماتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اس تہمت تراشی اور اس کا چرچا کرنے میں کچھ حصہ لیا تھا اس وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غصہ میں بھر کر یہ قسم کھا لی کہ اب میں مسطح بن اثاثہ کی کبھی بھی کوئی مالی مدد نہیں کروں گا، اس موقع پر اﷲ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ :

وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)15

(نور)

اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اﷲ تمہاری بخشش کرے اور اﷲ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔

اس آیت کوسن کرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی قسم توڑڈالی اور پھرحضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کاخرچ بدستورسابق عطافرمانے لگے۔16

(بخاری حدیث الافک ج۲ ص۵۹۵ تا ۵۹۶ املخصاً)

پھرحضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مسجدنبوی میں ایک خطبہ پڑھااورسورۂ نورکی آیتیں تلاوت فرماکرمجمع عام میں سنادیں اورتہمت لگانے والوں میں سے حضرت حسان بن ثابت وحضرت مسطح بن اثاثہ وحضرت حمنہ بنت جحشرضی اﷲ تعالٰی عنہم اوررئیس المنافقین عبداﷲبن ابی ان چاروں کوحدقذف کی سزامیں اسّی اسّی درے مارے گئے۔ 17

(مدارج جلد۲ص ۱۶۳وغیرہ)

شارح بخاری علامہ کرمانی علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی براء ت اورپاک دامنی قطعی ویقینی ہے جوقرآن سے ثابت ہے اگرکوئی اس میں ذرا بھی شک کرے تووہ کافر ہے۔ دوسرے تمام فقہاءِ امت کا بھی یہی مسلک ہے۔ 18

(بخاری جلد۲ ص۵۹۵)


1صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۱ملتقطاًومدارج النبوت، قسم سوم ، باب پنجم، ج۲، ص۱۵۹ملتقطاًوملخصاً 2مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۵۹۔۱۶۱ملتقطاً 3مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۶۱ 4مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۶۱ 5مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۵۷ومدارک التنزیل المعروف بتفسیر النسفی ، الجزء الثامن عشر ، سورۃ النور، تحت الایۃ ۱۲، ۱۳، ص۷۷۲ 6مدارک التنزیل المعروف بتفسیر النسفی ، الجزء الثامن عشر ، سورۃ النور، تحت ۱۲، ۱۳، ص۷۷۲ 7صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۳ملتقطاً 8السیرۃ الحلبیۃ ، غزوۃ بنی المصطلق ، ج۲ ، ص۴۰۲ ودلائل النبوۃ للبیھقی ، باب حدیث الافک، ج۴، ص 9صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۶ 10صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۴ 11صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث : ۴۱۴۱، ج۳، ص۶۳ 12ترجمہ کنزالایمان : توصبراچھااور اللہ ہی سے مددچاہتاہوںان باتوںپرجو تم بتارہے ہو۔پ ۱۱، یوسف : ۱۸ 13صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۴ 14صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، الحدیث۴۱۴۱، ج۳، ص۶۵ 15پ۱۸، النور : ۲۲ 16مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۶۴ 17مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ، ج۲، ص۱۶۳ 18حاشیۃ صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حاشیۃ : ۹، ج۲، ص۵۹۶

-: آیت تیمم کا نزول

-: جنگِ خندق

-: جنگ خندق کا سبب

-: مسلمانوں کی تیاری

-: ایک عجیب چٹان

-: حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی دعوت

-: بابرکت کھجوریں

-: اسلامی افواج کی مورچہ بندی

-: کفار کا حملہ

-: بنو قریظہ کی غداری

-: انصار کی ایمانی شجاعت

-: عمرو بن عبدود مارا گیا

-: نوفل کی لاش

-: حضرت زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو خطاب ملا

-: حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ شہید

-: حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی بہادری

-: کفار کیسے بھاگے ؟

-: غزوہ بنی قریظہ

۵ ھ کے متفرق واقعات :-