ہجرت کا پانچواں سال

-: غزوہ دُومۃ الجندل

-: غزوۂ مُریسیع

-: منافقین کی شرارت

-: حضرت جویریه رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے نکاح

-: واقعہ افک

-: آیت تیمم کا نزول

-: جنگِ خندق

-: جنگ خندق کا سبب

-: مسلمانوں کی تیاری

-: ایک عجیب چٹان

-: حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی دعوت

-: بابرکت کھجوریں

-: اسلامی افواج کی مورچہ بندی

-: کفار کا حملہ

-: بنو قریظہ کی غداری

-: انصار کی ایمانی شجاعت

-: عمرو بن عبدود مارا گیا

سب سے آگے عمرو بن عبدود تھایہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھاجنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا، یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگاتین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیرخداکرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ’’میں ‘‘ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے روکاکہ اے علی! کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا، یہ سن کر تاجدار نبوت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرار کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھااوریہ دعا فرمائی کہ یااللہ !عزوجل تو علی کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم کی مدد فرما ۔ حضرت اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہم جاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا :

اے عمرو بن عبدود ! تو مسلمان ہو جا ! حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
یہ مجھ سے کبھی ہرگز ہر گز نہیں ہو سکتا! عمرو بن عبدود
لڑائی سے واپس چلا جا! حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
یہ مجھے منظور نہیں! عمرو بن عبدود
تو پھر مجھ سے جنگ کر! حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔ عمرو بن عبدود
لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
آخر تمہارا نام کیا ہے؟ عمرو بن عبدود
علی بن ابی طالب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
ے بھتیجے!تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا۔ عمرو بن عبدود
لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حدپسندکرتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ

عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیاحضرت شیر خدا کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھااس پر جو غیرت سوار ہوئی توگھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اورحضرت شیر خداکرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم پر تلوار کا بھرپور وار کیاحضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا، یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگامگر پھر بھی زندگی بھریہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیاحضرت علی شیر خدارضی اللہ تعالٰی عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جااب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد اﷲ الغالبکرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچا تلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرااور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیااور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ ؎

شاہِ مرداں ، شیرِ یزداں قوتِ پرورد گار

لَا فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو قتل کیااور منہ پھیر کر چل دیئے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ اے علی! کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالٰی عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔ 1

(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴و۱۱۵)


1المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔الخ، ج۳، ص۴۲ملخصاً

-: نوفل کی لاش

-: حضرت زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو خطاب ملا

-: حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ شہید

-: حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی بہادری

-: کفار کیسے بھاگے ؟

-: غزوہ بنی قریظہ

۵ ھ کے متفرق واقعات :-