ہجرت کا پانچواں سال

-: غزوہ دُومۃ الجندل

-: غزوۂ مُریسیع

-: منافقین کی شرارت

-: حضرت جویریه رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح

-: واقعہ افک

-: آیت تیمم کا نزول

-: جنگِ خندق

-: جنگ خندق کا سبب

-: مسلمانوں کی تیاری

-: ایک عجیب چٹان

-: حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دعوت

-: بابرکت کھجوریں

-: اسلامی افواج کی مورچہ بندی

-: کفار کا حملہ

-: بنو قریظہ کی غداری

-: انصار کی ایمانی شجاعت

-: عمرو بن عبدود مارا گیا

-: نوفل کی لاش

-: حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خطاب ملا

-: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید

-: حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بہادری

-: کفار کیسے بھاگے ؟

-: غزوہ بنی قریظہ

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر اپنے مکان میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار کر غسل فرمایا، ابھی اطمینان کے ساتھ بیٹھے بھی نہ تھے کہ ناگہاں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام تشریف لائے اور کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اتار دیالیکن ہم فرشتوں کی جماعت نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا ہے اﷲ تعالٰی کا یہ حکم ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف چلیں کیونکہ ان لوگوں نے معاہدہ توڑ کر علانیہ جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا ہے۔1

(مسلم باب جواز قتال من نقض العہدج ۲ ص۹۵)

چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں ، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود بھی ہتھیار زیب تن فرمایا، اپنے گھوڑے پر جس کا نام ’’لحیف‘‘ تھاسوار ہو کر لشکر کے ساتھ چل پڑے اور بنی قریظہ کے ایک کنویں کے پاس پہنچ کر نزول فرمایا۔2

(زرقانی ج۲ ص۱۲۸)

بنی قریظہ بھی جنگ کے لئے بالکل تیار تھے چنانچہ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان کے قلعوں کے پاس پہنچے تو ان ظالم اور عہد شکن یہودیوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو(معاذ اﷲ) گالیاں دیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیااور تقریباً ایک مہینہ تک یہ محاصرہ جاری رہایہودیوں نے تنگ آکر یہ درخواست پیش کی کہ ’’حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔‘‘

حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’لڑنے والی فوجوں کو قتل کر دیا جائے، عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔‘‘

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔3

(مسلم جلد۲ ص۹۵)

اس فیصلہ کے مطابق بنی قریظہ کی لڑاکا فوجیں قتل کی گئیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے مال و سامان کو مجاہدین اسلام نے مال غنیمت بنا لیااور اس شریر و بدعہد قبیلہ کے شروفساد سے ہمیشہ کے لئے مسلمان پرامن و محفوظ ہو گئے۔

یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب جب قتل کیلئے مقتل میں لایا گیا تو اس نے قتل ہونے سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) خدا کی قسم! مجھے اس کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں نے کیوں تم سے عداوت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑ دیتا ہے، خدا بھی اس کو چھوڑ دیتا ہے، لوگو! خدا کے حکم کی تعمیل میں کوئی مضائقہ نہیں بنی قریظہ کا قتل ہونا یہ ایک حکم الٰہی تھا یہ (توراۃ) میں لکھا ہوا تھایہ ایک سزا تھی جوخدا نے بنی اسرائیل پر لکھی تھی۔4

(سیرت ابن ہشام غزوۂ بنو قریظہ ج۳ ص۲۴۱)

یہ حیی بن اخطب وہی بدنصیب ہے کہ جب وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر جا رہا تھا تو اس نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مخالفت پر میں کسی کو مدد نہ دوں گااور اس عہد پر اس نے خدا کو ضامن بنایا تھا لیکن جنگ خندق کے موقع پر اس نے اس معاہدہ کو کس طرح توڑ ڈالا یہ آپ گزشتہ اوراق میں پڑھ چکے کہ اس ظالم نے تمام کفار عرب کے پاس دورہ کرکے سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھاراپھر بنو قریظہ کو بھی معاہدہ توڑنے پر اکسایاپھر خود جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوا۔


1صحیح مسلم، کتاب الجھادوالسیر، باب جوازقتال من۔۔۔الخ، الحدیث : ۱۷۶۹، ص۹۷۳ 2المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ بنی قریظۃ، ج۳، ص۶۸، ۶۹ملتقطاً 3السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ، غزوۃ بنی قریظۃ، ج۲، ص۴۴۲۔۴۴۸ ملتقطاً والکامل فی التاریخ، ذکرغزوۃ بنی قریظۃ ، ج۲، ص۷۵، ۷۶ 4الکامل فی التاریخ ، ذکرغزوۃ بنی قریظۃ ، ج۲، ص۷۶

۵ ھ کے متفرق واقعات :-