اخلاق نبوت

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عقل

-: حلم و عفو

-: تواضع

-: حسن معاشرت

-: حیاء

-: وعدہ کی پابندی

-: عدل

-: وقار

-: زاہدانہ زندگی

-: شجاعت

-: طاقت

-: رکانہ پہلوان سے کشتی

-: یزید بن رکانہ سے مقابلہ

-: ابو الاسود سے زور آزمائی

-: سخاوت

حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی شانِ سخاوت محتاج بیان نہیں ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔ خصوصاً ماہ رمضان میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سخاوت اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ برسنے والی بدلیوں کو اٹھانے والی ہواؤں سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سخی ہو جاتے تھے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے لا (نہیں ) کا لفظ نہیں فرمایا۔

(شفاء شریف جلد۱ ص۶۵)

یہی وہ مضمون ہے جس کو فرزدق شاعر تابعی متوفی ۱۱۰ ھ نے کیا خوب کہا ہے کہ 1 ؎

مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلَّا فِیْ تَشَھُّدِہٖ لَوْلاَ التَّشَھُّدُ کَانَتْ لَاؤہٗ نَعَمْ

اسی کا ترجمہ کسی فارسی کے شاعر نے اس طرح کیا ہے کہ ؎

نہ گفت لا بزبان مبارکش ہر گز مگر در اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ

یعنی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کسی سائل کے جواب میں لا(نہیں ) کا لفظ نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ نعم(ہاں ) ہی کہا مگر کلمہ شہادت میں لا (نہیں ) کا لفظ ضرور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی زبان مبارک پر آتا تھا اور اگر کلمہ شہادت میں لا کہنے کی ضرورت نہ ہوتی تو اس میں بھی لا (نہیں ) کی جگہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نَعَمْ (ہاں ) ہی فرماتے۔

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود و منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فرما دیا کہ عالم سخاوت میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کافر کا بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام ’’جعرانہ‘‘ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطافرما دیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا۔

چنانچہ صفوان مکہ جا کر چلا چلا کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اے لوگو! دامن اسلام میں آ جاؤ محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) اس قدر زیادہ مال عطافرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا اس کے بعد پھر صفوان خود بھی مسلمان ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ 2

(زرقانی ج۴ ص۲۹۵)

بہر حال آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے جودونوال اور سخاوت کے احوال اس قدر عدیم المثال اور اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ تحریر کیا جائے تو بہت سی کتابوں کا انبار تیارہو سکتا ہے مگر اس سے پہلے کے ا وراق میں ہم جتنا اور جس قدر لکھ چکے ہیں وہ سخاوت نبوت کو سمجھنے کے لئے بہت کافی ہے۔ خداوند کریم عزوجل ہم سب مسلمانوں کو حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پرزیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


-: اسماء مبارکہ

-: آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کنیت