اخلاق نبوت

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عقل

-: حلم و عفو

-: تواضع

-: حسن معاشرت

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تَعَالٰی عنھن اپنے احباب، اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم، اپنے رشتے داروں ، اپنے پڑوسیوں ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا، خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کابیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفر و وطن میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا مگر کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟ 1

(زرقانی جلد۴ ص۲۶۶)

حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے زیادہ کوئی خوش اخلاق نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہما یا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے گھر والوں میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو پکارتا تو آپ لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ حضرت جریر رضی اﷲ تعالٰی عنہارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مجھے پاس آنے سے نہیں روکا اور جس وقت بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ مسے خوش طبعی بھی فرماتے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے اور ہر ایک سے گفتگو فرماتے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے اور ان بچوں کو اپنی مقدس گود میں بٹھا لیتے اور آزاد نیز لونڈی غلام اور مسکین سب کی دعوتیں قبول فرماتے اور مدینہ کے انتہائی حصہ میں رہنے والے مریضوں کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے اور عذر پیش کرنے والوں کے عذر کو قبول فرماتے۔ 2

(شفاء شریف جلد۱ ص۷۱)

حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے کان میں کوئی سرگوشی کی بات کرتا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اس وقت تک اپنا سر اس کے منہ سے الگ نہ فرماتے جب تک وہ کان میں کچھ کہتا رہتا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ا ور جو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سامنے آتا آپ سلام کرنے میں پہل کرتے اور ملاقاتیوں سے مصافحہ فرماتے اور اکثر اوقات اپنے پاس آنے والے ملاقاتیوں کے لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی چادر مبارک بچھا دیتے اور اپنی مسند بھی پیش کر دیتے اور اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو ان کی کنیتوں اور اچھے ناموں سے پکارتے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو کاٹتے نہیں تھے۔ ہر شخص سے خوش روئی کے ساتھ مسکرا کر ملاقات فرماتے، مدینہ کے خدام اور نوکر چاکر برتنوں میں صبح کو پانی لے کر آتے تا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان کے برتنوں میں دست مبارک ڈبو دیں اور پانی متبرک ہو جائے توسخت جاڑے کے موسم میں بھی صبح کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ہر ایک کے برتن میں اپنا مقدس ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے اور جاڑے کی سردی کے باوجود کسی کومحروم نہیں فرماتے تھے۔ 3

(شفاء شریف جلد۱ ص۷۲)

حضرت عمرو بن سائب رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میں ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے رضاعی باپ یعنی حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے شوہرتشریف لائے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے کپڑے کا ایک حصہ ان کے لئے بچھا دیا اور وہ اس پر بیٹھ گئے پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی رضاعی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاتشریف لائیں تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے کپڑے کا باقی حصہ ان کے لئے بچھا دیا پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے رضاعی بھائی آئے تو آپ نے ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت ثویبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے پاس ہمیشہ کپڑا وغیرہ بھیجتے رہتے تھے یہ ابولہب کی لونڈی تھیں اور چند دنوں تک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو انہوں نے بھی دودھ پلایا تھا۔ 4

(شفاء شریف ج۱ ص۷۵)

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے لئے کوئی مخصوص بستر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ ازواجِ مطہرات کے بستروں ہی پر آرام فرماتے تھے اور اپنے پیار و محبت سے ہمیشہ اپنی مقدس بیویوں رضی اﷲ تعالٰی عنہ ن کو خوش رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہافرماتی ہیں کہ میں پیالے میں پانی پی کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو جب پیالہ دیتی تو آپ پیالے میں اسی جگہ اپنا لب مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے جہاں میرے ہونٹ لگے ہوتے اور میں گوشت سے بھری کوئی ہڈی اپنے دانتوں سے نوچ کر وہ ہڈی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو دیتی تو آپ بھی اسی جگہ سے گوشت کو اپنے دانتوں سے نوچ کر تناول فرماتے جس جگہ میرا منہ لگا ہوتا۔ 5

(زُرقانی جلد۴ ص۲۶۹)

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم روزانہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہ نسے ملاقات فرماتے اور اپنی صاحبزادیوں کے گھروں پر بھی رونق افروز ہو کر ان کی خبر گیری فرماتے اوراپنے نواسوں اور نواسیوں کو بھی اپنے پیار و شفقت سے بار بار نوازتے اور سب کی دلجوئی و رواداری فرماتے اور بچوں سے بھی گفتگو فرما کر ان کی بات چیت سے اپنا دل خوش کرتے اور ان کا بھی دل بہلاتے اپنے پڑوسیوں کی بھی خبر گیری اور ان کے ساتھ انتہائی کریمانہ اور مشفقانہ برتاؤ فرماتے الغرض آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے طرزِ عمل اور اپنی سیرت مقدسہ سے ایسے اسلامی معاشرہ کی تشکیل فرمائی کہ اگر آج دنیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے لگے تو تمام دنیا میں امن و سکون اور محبت و رحمت کا دریا بہنے لگے اور سارے عالم سے جدال و قتال اور نفاق و شقاق کا جہنم بجھ جائے اور عالم کائنات امن و راحت اور پیار و محبت کی بہشت بن جائے۔


-: حیاء

-: وعدہ کی پابندی

-: عدل

-: وقار

-: زاہدانہ زندگی

-: شجاعت

-: طاقت

-: رکانہ پہلوان سے کشتی

-: یزید بن رکانہ سے مقابلہ

-: ابو الاسود سے زور آزمائی

-: سخاوت

-: اسماء مبارکہ

-: آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کنیت