اخلاق نبوت

-: حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عقل

-: حلم و عفو

-: تواضع

-: حسن معاشرت

-: حیاء

-: وعدہ کی پابندی

-: عدل

خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تمام جہان میں سب سے زیادہ امین سب سے بڑھ کرعادل اور پاک دامن وراست باز تھے۔ یہ وہ روشن حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بڑے بڑے دشمنوں نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ چنانچہ اعلان نبوت سے قبل تمام اہل مکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو ’’صادق الوعد‘‘ اور ’’امین‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔ حضرت ربیع بن خثیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ مکہ والوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اعلیٰ درجہ کے امین اور عادل ہیں اسی لئے اعلان نبوت سے پہلے اہل مکہ اپنے مقدمات اور جھگڑوں کا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے فیصلہ کرایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے تمام فیصلوں کو انتہائی احترام کے ساتھ بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ امین کا فیصلہ ہے۔ 1

(شفاء شریف جلد۱ ص۷۸، ۷۹)

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کس قدر بلند مرتبہ عادل تھے اس بارے میں بخاری شریف کی ایک روایت سب سے بڑھ کر شاہد عدل ہے۔ قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسلام میں چور کی یہ سزا ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ پہنچوں سے کاٹ ڈالا جائے۔ قبیلہ قریش کو اس واقعہ سے بڑی فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر ہمارے قبیلہ کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت پر ایسا بدنما داغ ہو گا جو کبھی مٹ نہ سکے گا اورہم لوگ تمام عرب کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو جائیں گے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ بارگاہ رسالت میں کوئی زبردست سفارش پیش کر دی جائے تا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹیں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہماکو جو نگاہ نبوت میں انتہائی محبوب تھے دباؤ ڈال کر اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ وہ دربار اقدس میں سفارش پیش کریں ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہمانے اشراف قریش کے اصرار سے متأثر ہو کر بارگاہِ رسالت میں سفارش عرض کر دی یہ سن کر پیشانی نبوت پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے نہایت ہی غضب ناک لہجہ میں فرمایا کہ

اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہ

اللہ کہ اے اسامہ! تو اﷲ تعالٰی کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتاہے؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ

یَااَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا ضَلَّ مَنْ قَبْلَکُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَا سَرَقَ الضَّعِیْفُ فِیْھِمْ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَاَیْمُ اللّٰہ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَّمَدٌ یَدَھَا 2

(بخاری جلد۲ ص۱۰۰۳ باب کراہیتہ الشفاعت فی الحدود)

اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس و جہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم !اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ کاٹ لے گا۔( صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )


-: وقار

-: زاہدانہ زندگی

-: شجاعت

-: طاقت

-: رکانہ پہلوان سے کشتی

-: یزید بن رکانہ سے مقابلہ

-: ابو الاسود سے زور آزمائی

-: سخاوت

-: اسماء مبارکہ

-: آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کنیت