شمائل و خصائل

-: حلیۂ مقدسہ

-: جسم اطہر

-: جسم انور کا سایہ نہ تھا

-: مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ

-: مہر نبوت

-: قد مبارک

-: سر اقدس

-: مقدس بال

-: رُخِ انور

-: محراب اَبرو

-: نورانی آنکھ

-: بینی مبارک

-: مقدس پیشانی

-: گوش مبارک

-: دہن شریف

-: زبان اقدس

-: لعابِ دہن

-: آواز مبارک

-: پرنور گردن

-: دست ِ رحمت

-: شکم و سینہ

-: پائے اقدس

-: لباس

-: عمامہ

-: چادر

-: کملی

-: نعلین اقدس

-: پسندیدہ رنگ

-: انگوٹھی

-: خوشبو

-: سرمہ

-: سواری

-: نفاست پسندی

-: مرغوب غذائیں

-: روز مرہ کے معمولات

-: سونا جاگنا

-: رفتار

-: کلام

-: دربار نبوت

حضور تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا ۔یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اورباڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔ 1

(بخاری ج۱ ص۳۹۸)

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔

(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجہاد)

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ! ؎

وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں

غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی

جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ ونصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار میں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔


1صحیح البخاری، کتاب الجھادوالسیر، باب فضل النفقۃ فی سبیل اللّٰہ، الحدیث : ۲۸۴۲، ج۲، ص۲۶۶ملتقطاً

-: تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے خطبات

-: سرورِ کائنات کی عبادات

-: نماز

-: روزہ

-: زکوٰۃ

-: حج