شمائل و خصائل
- حلیۂ مقدسہ
- جسم اطہر
- جسم انور کا سایہ نہ تھا
- مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ
- مہر نبوت
- قد مبارک
- سر اقدس
- مقدس بال
- رُخِ انور
- محراب اَبرو
- نورانی آنکھ
- بینی مبارک
- مقدس پیشانی
- گوش مبارک
- دہن شریف
- زبان اقدس
- لعابِ دہن
- آواز مبارک
- پرنور گردن
- دست ِرحمت
- شکم و سینہ
- پائے اقدس
- لباس
- عمامہ
- چادر
- کملی
- نعلین اقدس
- پسندیدہ رنگ
- انگوٹھی
- خوشبو
- سرمہ
- سواری
- نفاست پسندی
- مرغوب غذائیں
- روز مرہ کے معمولات
- سونا جاگنا
- رفتار
- کلام
- دربار نبوت
- تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خطبات
- سرورِ کائنات کی عبادات
- نماز
- روزہ
- زکوٰۃ
- حج
-: حلیۂ مقدسہ

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اﷲ تعالٰی نے جس طرح کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا اسی طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو جمالِ صورت میں بھی بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا۔ ہم اور آپ حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی شانِ بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتے ہیں ؟ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم جو دن رات سفر و حضر میں جمال نبوت کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن کر یہی کہنا پڑتا ہے جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ
اَبَدًا وَّ عِلْمِیْ اَنَّہٗ لَا یَخْلُقُ
یعنی اﷲ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔ 1
(حیاۃ الحیوان د میری ج۱ص۴۲)
صحابی رسول اور تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے قصیدۂ ہمزیہ میں جمال نبوت کی شان بے مثال کو اس شان کے ساتھ بیان فرمایا کہ ؎
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ!
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
یعنی یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں ۔
خُلِقْتَ مُبَرَّءًمِّنْ کُلِ عَیْبٍ!
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ 2
(یا رسول اﷲ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)آپ ہر عیب و نقصان سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔
حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اپنے قصیدۂ بردہ میں فرمایا کہ ؎
مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ
فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ 3
یعنی حضرت محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابل تقسیم ہی نہیں ۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہ العزیز نے بھی اس مضمون کی عکاسی فرماتے ہوئے کتنے نفیس انداز میں فرمایا ہے کہ ؎
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خَلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم
بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسب ِاعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بے مثل و بے مثال ہیں ۔ چنانچہ حضرات محدثین و مصنفین سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ہر ہر عضو شریفہ کے تناسب اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے۔ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں ’’حلیۂ مبارکہ‘‘ کے ذکر جمیل سے حسن و جمال پیدا کرنے کے لئے اس عنوان پر حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں تاکہ اس عالم کامل کی برکتوں سے بھی یہ کتاب سرفراز ہو جائے۔ حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ’’پنجہ نور‘‘ میں تحریر فرمایا کہ
-: حلیۂ مقدسہ
روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں | حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں |
پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں | جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں |
اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال | مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال |
تا کہ یاروں کو مرے پہچان ہو | اور اس کی یاد بھی آسان ہو |
تھا میانہ قد و اوسط پاک تن | پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن |
چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے | تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے |
تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی | چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی |
دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال | اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال |
اِتصال دو مہ ’’عیدین‘‘ تھا | یاکہ ادنیٰ قرب تھا ’’قوسین‘‘ کا |
تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں | دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں |
کان دونوں خوب صورت ارجمند | ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند |
صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا | صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا |
تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ | خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ |
تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن | ہو ازار و جبہ یا پیر ہن |
سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا | پر کبھی سود و سپید و صاف تھا |
میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی | دونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی |
1
ثم إنہ أصبح فأسلم (1؍280)(حصہ دوم( (۵) شرح الزرقانی علی المؤطا. ثم أصبح فأسلم۔ (4؍393)
1 حیاۃ الحیوان الکبری، باب الہمزۃ، ج۱، ص۷۵
2
شرح دیوان حسان بن ثابت الانصاری، ص۶۶
3
قصیدۃ البردۃ مع شرحہا، ص۱۱۱
-: جسم اطہر
-: جسم اطہر
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔
(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیبا و حریر (ریشمیں کپڑوں) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا اور آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔
(بخاری ج۱ ص۵۰۳ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم)
حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اسی کیفیت سے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شاد مانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔
(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم)
آپ کے رُخِ انور پر پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالٰی عنہا ایک چمڑے کا بستر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے بچھا دیتی تھیں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں پھر اس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔
(بخاری ج۲ ص۹۲۹ باب من زار قوماً فقال عندهم و بخاری ج۱ ص۳۶۵ حدیث الافک)
-: جسم انور کا سایہ نہ تھا
-: جسم انور کا سایہ نہ تھا
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ ھ) نے اپنی کتاب ” نوادر الاصول ” میں حضرت ذکوان تابعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ امام ابن سبع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تو میرے تمام اعضاء کو نور بنا دے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا کہ وَاجْعَلْنِيْ نُوْرًا یعنی یا اﷲ ! تو مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا ؟
اسی طرح عبداﷲ بن مبارک اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما نے بھی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔
(زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
-: مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ
-: مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور علامہ حجازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے کہ بدن تو بدن، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا، اس مضمون کو ابو الربیع سلیمان بن سبع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی کتاب شفاء الصدور في اعلام نبوة الرسول میں بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا اس لئے آپ ان چیزوں سے محفوظ رہے۔ امام سبتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بھی اس مضمون کو اعظم الموارد میں مفصل لکھا ہے۔
(زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
-: مہر نبوت
-: مہر نبوت
حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔
(شمائل ترمذی ص۳ وترمذی ج۲ص ۲۰۵)
لیکن ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مہر نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر تھی اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ
اَللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ بِوَجْهٍ حَيْثُ کُنْتَ فَاِنَّكَ مَنْصُوْرٌ
یعنی ایک اﷲ ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول !) آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ
كَانَ نُوْرًا يَّتَلَا ْٔ لَا
یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔
(حاشیه ترمذی ج۲ ص۲۰۵ باب ماجاء في خاتم النبوة)
-: قد مبارک
-: قد مبارک
حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۱)
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نہ طویل القامت تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ میانہ قد تھے۔ بوقت ِ رفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔
(شمائل ترمذی ص۱)
اس پر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا اتفاق ہے کہ آپ میانہ قد تھے لیکن یہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔
ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام | قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت |
اُس سہی سروِقامت پہ لاکھوں سلام | طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں |
-: سر اقدس
-: سر اقدس
حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حلیہ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” ضخم الراس ” یعنی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سر مبارک ” بڑا ” تھا (جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔)
(شمائل ترمذی)
اُس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام | جس کے آگے سرسروراں خم رہیں |
-: مقدس بال
-: مقدس بال
حضورِ انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قبلہ بریلوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس و لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو | گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تادوش |
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو | آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر |
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۴-۵)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔
(بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب ما یذکر فی الشیب)
لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام | وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا |
-: رُخِ انور
-: رُخِ انور
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ، پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا چہرہ (چمک دمک میں) تلوار کی مانند تھا ؟ تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ
مَنْ رَاٰهُ بَدِيْهَةً هَابَهٗ وَ مَنْ خَالَطَهٗ مَعْرِفَةً اَحَبَّهٗ
(شمائل ترمذی ص۲)
جو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔
(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپ کے چہرۂ انور کے بارے میں یہ کہا : فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهٗ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْهَهٗ لَيْسَ بِوَجْهِ کَذَّابٍ یعنی میں نے جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو بغور دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہے۔
(مشکوٰۃ ج۱ ص۱۶۸ باب فضل الصدقه)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کیا خوب کہا کہ
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام | چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود |
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام | جس سے تاریک دل جگمگانے لگے |
عربی زبان میں بھی کسی مداح رسول نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رخ انور کے حسن و جمال کا کتنا حسین منظر اور کتنی بہترین تشریح پیش کی ہے
الْحُسْنِ لٰکِنْ وَجْهُهُ الْاٰیَةُ الْکُبْرٰي | نَبِيُّ جَمَالٍ کُلُّ مَا فِيْهِ مُعْجِزٌ مِنَ |
يُطَالِعُ مِنْ لَا ْٔ لَآئِ غُرَّتِهِ الْفَجْرَا | يُنَادِيْ بَلَالُ الْخَالِ فِيْ صَحْنِ خَدِّهٖ |
یعنی حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حسن و جمال کے بھی نبی ہیں، یوں تو ان کی ہر ہر چیز حسن کا معجزہ ہے لیکن خاص کر ان کا چہرہ تو آیت کبریٰ (بہت ہی بڑا معجزہ) ہے۔
ان کے رخسار کے صحن میں ان کے تل کا بلال ان کی روشن پیشانی کی چمک سے صبح صادق کو دیکھ کر اذان کہا کرتا تھا۔
-: محراب اَبرو
-: محراب اَبرو
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔
(شمائل ترمذی ص۲)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ابروئے مبارک کی مدح میں فرماتے ہیں کہ
اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام | جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی |
اور حضرت محسن کا کوروی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے چہرۂ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ
یا کھنچی معرکۂ بدر میں شمشیریں ہیں | مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں |
-: نورانی آنکھ
-: نورانی آنکھ
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۲ و دلائل النبوة ص۵۴)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔
(زرقاني علي المواهب ج۵ ص۲۴۶ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۱)
چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ
اَقِيْمُوا الرُّكُوْعَ وَ السُّجُوْدَ فَوَ اللّٰهِ اِنِّيْ لَاَ رَاكُمْ مِنْ بَعْدِيْ
(مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی اے لوگو ! تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم ! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
صاحب ِ مرقاۃ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ
وَهِيَ مِنَ الْخَوَارِقِ الَّتِيْ اُعْطِيَهَا عَلَيْهِ السَّلَام
(حاشیه مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی یہ باب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آنکھوں کا دیکھنا محسوسات ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو بھی جوآنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ وَاللّٰهِ مَا يَخْفٰي عَلَيَّ رَکُوْعُكُمْ وَلَا خُشُوْعُكُمْ
(بخاری ج۱ ص۵۹)
یعنی خدا کی قسم ! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ سبحان اﷲ ! پیارے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نورانی آنکھوں کے اعجاز کا کیا کہنا ؟ کہ پیٹھ کے پیچھے سے نمازیوں کے رکوع بلکہ ان کے خشوع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
” خشوع ” کیا چیز ہے ؟ خشوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سبحان اﷲ ! چشمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے ؟ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہٗ نے کیا خوب فرمایا
دھوم ” والنجم ” میں ہے آپ کی بینائی کی | شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال |
بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی | فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر |
-: بینی مبارک
-: بینی مبارک
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔
(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام | نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود |
-: مقدس پیشانی
-: مقدس پیشانی
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ واسع الجبين یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔
(شمائل ترمذی ص۲)
قدرتی طور سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیشانی پر ایک نورانی چمک تھی۔ چنانچہ دربار رسالت کے شاعر مداح رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اسی حسین و جمیل نورانی منظر کو دیکھ کر یہ کہا ہے کہ
يَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَي الْمُتَوَقِّدِ | مَتَي يَبْدُ فِي الدَّاجِي الْبَهِيْمِ جَبِيْنُهٗ! |
یعنی جب اندھیری رات میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں۔
-: گوش مبارک
-: گوش مبارک
آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ
اِنِّيْ اَرٰي مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ
(خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۷)
یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دور و نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے، جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ لَا بُعْدَ فِيْ سَمَآعِهٖ صَلَي اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَ يَسْمَعُ اَطِيْطَ السَّمَآءِ یعنی اگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔
(خصائص کبریٰ ج۱ ص۵۳ و حاشیہ الدولۃ المکیۃ ص۱۸۰)
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام | دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان |
-: دہن شریف
-: دہن شریف
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔
(شمائل ترمذی ص۲ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۷۴)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کو کبھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء علیہم السلام شیطان کے تسلط سے محفوظ و معصوم ہیں۔
(زرقانی ج۵ ص۲۴۸)
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام | وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا |
-: زبان اقدس
-: زبان اقدس
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات و مخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام | وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں |
اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام | اسکی پیاری فصاحت پہ بیحد درود |
-: لعابِ دہن
-: لعابِ دہن
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا لعابِ دہن (تھوک) زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ” شفاء العین ” بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔
(زاد المعاد غزوه بدر)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چہرے پر تیر لگا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔
(اصابه تذکره ابو قتادہ)
شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔
(زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)
امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔
(زرقانی ج۵ ص۲۴۶)
اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام | جس کے پانی سے شاداب جان و جناں |
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام | جس سے کھاری کنوئیں شیرئہ جاں بنے |
-: آواز مبارک
-: آواز مبارک
یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے، خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔
(زرقانی ج۴ ص۱۷۸)
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام | جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں |
-: پرنور گردن
-: پرنور گردن
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔
(شمائل ترمذی ص۲)
-: دست ِ رحمت
-: دست ِ رحمت
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔
(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم ج۲ ص۲۵۷)
جس شخص سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست ِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا دست ِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔
(مسلم ج۲ ص۲۵۶ باب طیب ریحه صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم)
اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔
موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام | ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا |
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام | جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں |
ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام | کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون |
اُس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام | جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم |
انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام | نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں |
-: شکم و سینہ
-: شکم و سینہ
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔
(شمائل ترمذی ص۲)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الٰہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الٰہی کا گنجینہ تھا۔
اُس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام | کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا |
-: پائے اقدس
-: پائے اقدس
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔
(شمائل ترمذی ص۲ و مدارج النبوة وغیره)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
شمع راہ اصابت پہ لاکھوں سلام | ساقِ اصل قدم شاخ نخل کرم |
اُس کف پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام | کھائی قرآن نے خاکِ گزر کی قسم |
-: لباس
-: لباس
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے۔ اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔
-: عمامہ
-: عمامہ
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۹ وغیرہ)
عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔
(ابو داؤد باب العمائم ص ۲۰۹ ج۲ مجتبائی)
-: چادر
-: چادر
یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں ” حبرہ ” یا بردیمانی کہلاتی تھیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے استعمال فرمائی ہے۔
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخضرة مجتبائی)
-: کملی
-: کملی
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقت ِ وفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے وفات پائی۔
(ترمذی ج۱ ص۲۰۶ باب ماجاء فی الثوب)
-: نعلین اقدس
-: نعلین اقدس
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے (_country_) میں چپل ہوتے ہیں۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
-: پسندیدہ رنگ
-: پسندیدہ رنگ
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے استعمال فرمائے ہیں۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے ؟ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دو سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷،۲۰۸ باب فی الحمرة)
-: انگوٹھی
-: انگوٹھی
جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اُوپر تلے تین سطروں میں مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کندہ کیا ہوا تھا۔
(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
-: خوشبو
-: خوشبو
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خوشبو بہت زیادہ پسند تھی آپ ہمیشہ عطر کا استعمال فرمایا کرتے تھے حالانکہ خود آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ایسی خوشبو نکلتی تھی کہ جس گلی میں سے آپ گزر جاتے تھے وہ گلی معطر ہو جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ خوشبو پھیلے اور رنگ نظر نہ آئے اور عورتوں کے لئے وہ خوشبو بہتر ہے کہ وہ خوشبو نہ پھیلے اور رنگ نظر آئے ۔کوئی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس خوشبو بھیجتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خوشبو کے تحفہ کو رد مت کرو کیونکہ یہ جنت سے نکلی ہوئی ہے۔
(شمائل ترمذی ص۱۵)
-: سرمہ
-: سرمہ
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم روزانہ رات کو ” اِثمد ” کا سرمہ لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اثمد کا سرمہ لگایا کرو یہ نگاہ کو روشن اور تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اُگاتا ہے۔
(شمائل ترمذی ص۵)
-: سواری
-: سواری
گھوڑے کی سواری آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ گھوڑوں کے علاوہ اونٹ، خچر حمار (عربی گدھا جو گھوڑے سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے) پر بھی سواری فرمائی ہے۔
(صحیحین وغیره کتب احادیث و سیر)
-: نفاست پسندی
-: نفاست پسندی
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا مزاجِ اقدس نہایت ہی لطیف اور نفاست پسند تھا۔ ایک آدمی کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو ناگواری کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کپڑوں کو دھو لیا کرے ؟ اسی طرح ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال اُلجھے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ کیا اس کو کوئی ایسی چیز (تیل کنگھی) نہیں ملتی کہ یہ اپنے بالوں کو سنوارلے۔
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخلقان الخ مجتبائی)
اسی طرح ایک آدمی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس بہت ہی خراب قسم کے کپڑے پہنے ہوئے آگیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ مال بھی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں میرے پاس اونٹ بکریاں گھوڑے غلام سبھی قسم کے مال ہیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اﷲ تعالٰی نے تم کو مال دیا ہے تو چاہیے کہ تمہارے اوپر اس کی نعمتوں کا کچھ نشان بھی نظر آئے۔ (یعنی اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنو)
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ مجتبائی)
-: مرغوب غذائیں
-: مرغوب غذائیں
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ اور صبر و قناعت کا مکمل نمونہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کبھی لذیذ اور پر تکلف کھانوں کی خواہش ہی نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ کبھی آپ نے چپاتی نہیں کھائی پھر بھی بعض کھانے آپ کو بہت پسند تھے جن کو بڑی رغبت کے ساتھ آپ تناول فرماتے تھے۔ مثلاً عرب میں ایک کھانا ہوتا ہے جو ” حیس ” کہلاتا ہے یہ گھی، پنیر اور کھجور ملا کر پکایا جاتا ہے اس کو آپ بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے تھے۔
جوکی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے، سالنوں میں گوشت، سرکہ، شہد، روغن زیتون، کدو خصوصیت کے ساتھ مرغوب تھے۔ گوشت میں کدو پڑا ہوتا تو پیالہ میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بکری، دنبہ، بھیڑ، اونٹ، گورخر،خرگوش، مرغ، بٹیر، مچھلی کا گوشت کھایا ہے۔ اسی طرح کھجور اور ستو بھی بکثرت تناول فرماتے تھے۔ تربوز کو کھجور کے ساتھ ملا کر، کھجور کے ساتھ ککڑی ملا کر، روٹی کے ساتھ کھجور بھی کبھی کبھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ انگور، انار وغیرہ پھل فروٹ بھی کھایا کرتے تھے۔
ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا دودھ میں کبھی پانی ملا کراور کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی کشمش اور کھجور پانی میں ملا کر اس کا رس پیتے تھے جو کچھ پیتے تین سانس میں نوش فرماتے۔
ٹیبل (میز) پر کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا،ہمیشہ کپڑے یا چمڑے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے، مسند یا تکیہ پر ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کبھی کچھ نہ کھاتے نہ اس کو پسند فرماتے۔ کھانا صرف انگلیوں سے تناول فرماتے چمچہ کانٹا وغیرہ سے کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہاں ابلے ہوئے گوشت کو کبھی کبھی چھری سے کاٹ کاٹ کر بھی کھاتے تھے۔
(شمائل ترمذی)
-: روز مرہ کے معمولات
-: روز مرہ کے معمولات
احادیث ِ کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک خدا عزوجل کی عبادت کے لئے ،دوسرا عام مخلوق کے لئے، تیسرا اپنی ذات کے لئے۔
عام طور پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد آپ اپنے مصلیٰ پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آفتاب خوب بلند ہو جاتا۔ عام لوگوں سے ملاقات کا یہی خاص وقت تھا لوگ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی حاجات و ضروریات کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کی ضروریات کو پوری فرماتے اور لوگوں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین فرماتے اپنے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے۔ اس کے بعد مختلف قسم کی گفتگو فرماتے کبھی کبھی لوگ زمانہ جاہلیت کی باتوں اور رسموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تو حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام بھی مسکرا دیتے کبھی کبھی صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم آپ کو اشعار بھی سناتے۔
(مشکوٰة ج۲ ص۴۰۶ باب الضحک) ( ابو داؤد ج۲ ص۳۱۸ باب فی الرجل یجلس متربعاً)
اکثر اسی وقت میں مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم بھی فرماتے۔ جب سورج خوب بلند ہو جاتا تو کبھی چار رکعت کبھی آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرماتے پھر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے حجروں میں تشریف لے جاتے اور گھریلو ضروریات کے بندوبست میں مصروف ہو جاتے اور گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کی مدد فرماتے۔
(بخاری ج۱ ص۹۳ باب من کان فی حاجة اہله)
نماز عصر کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کو شرفِ ملاقات سے سرفراز فرماتے اور سب کے حجروں میں تھوڑی تھوڑی دیر ٹھہر کر کچھ گفتگو فرماتے پھر جس کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے، تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن وہیں جمع ہو جاتیں، عشاء تک آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان سے بات چیت فرماتے رہتے پھر نماز عشاء کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد سے واپس آ کر آرام فرماتے اور عشاء کے بعد بات چیت کونا پسند فرماتے ۔
(مسلم ج۱ ص۴۷۲ باب القسم بین الزوجات)
-: سونا جاگنا
-: سونا جاگنا
نماز عشاء پڑھ کر آرام کرنا عام طور پر یہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا معمول تھا، سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ سورتیں ضرور تلاوت فرماتے اور کچھ دعاؤں کا بھی ورد فرماتے۔ پھر اکثر یہ دعا پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے کہ اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَاَحْيٰي يا الله تیرا نام لے کر وفات پاتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں۔ نیند سے بیدار ہوتے تو اکثر یہ دعا پڑھتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَحْيَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ اس خدا کیلئے حمد ہے جس نے موت کے بعد ہم کو زندہ کیا اور اسی کی طرف حشر ہوگا۔
آدھی رات یا پہر رات رہے بستر سے اٹھ جاتے مسواک فرماتے پھر وضو کرتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ تلاوت فرماتے، مختلف دعاؤں کا وظیفہ فرماتے، خصوصیت کے ساتھ نماز تہجد ادا فرماتے، تہجد کی نماز میں کبھی لمبی لمبی کبھی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے، ضعف پیری میں کبھی کچھ رکعتیں بیٹھ کر بھی ادا فرماتے، نمازِ تہجد کے بعد وتر پڑھتے اور پھر صبح صادق طلوع ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا فرما کر نمازِ فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، کبھی کبھی کئی کئی بار رات میں سوتے اور جاگتے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے اور کبھی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن سے گفتگو بھی فرماتے۔(صحاح سته وغیره)
-: رفتار
-: رفتار
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بہت ہی باوقار رفتار کے ساتھ چلتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ بوقت رفتار حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس قدر تیز چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے قدموں کے نیچے سے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم لوگ آ پ کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگتے اور مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلا تکلف بغیر کسی مشقت کے تیز رفتاری کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۹)
-: کلام
-: کلام
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے بلکہ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملہ کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سامعین اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ” جوامع الکلم ” کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔ حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔
(شمائل ترمذی ص۱۵)
-: دربار نبوت
-: دربار نبوت
حضور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا۔ یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اور باڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔ مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔
(بخاری ج۱ ص۳۹۸)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔
(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجهاد)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ !
وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں
غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی
جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ و نصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار ميں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔
-: تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خطبات
-: تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خطبات
نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اور شریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطبہ اور واعظ ہونا ضروریات و لوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اﷲ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِيْ ﴿۲۵﴾ وَ يَسِّرْ لِيْۤ اَمْرِيْ ﴿۲۶﴾ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ﴿۲۷﴾ یَفْقَهُوْا قَوْلِيْ ﴿۲۸﴾
(طه)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرَا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔
چنانچہ جمعہ و عیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اور ان خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔
چونکہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے، مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں۔
(مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعه)
چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پرجوش خطبہ اور تقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبار لوگ ؟ کدھر ہیں متکبرین ؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔
(ابن ماجه ص۳۲۶ ذکر البعث)
آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے منبر پر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے طویل خطبات بھی دیئے لیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔
میدانِ جنگ میں آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دست ِ مبارک میں ” عصا ” ہوتا تھا۔
(ابن ماجه ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبة یوم الجمعة)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا اثر انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کا یہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زار و قطار رونے لگے۔
(بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورئہ مائدہ)
-: سرورِ کائنات کی عبادات
-: سرورِ کائنات کی عبادات
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلٰوۃ والتسلیم کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام انبیاء سابقین کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کا طریقہ عبادت کیا تھا ؟ اور ان کے کون کون سے اوقات عبادتوں کے لئے مخصوص تھے ؟ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ فخرو شرف صرف حضور خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عبادات کے تمام طریقوں، ان کے اوقات و کیفیات غرض اس کے ایک ایک جزئیہ کو محفوظ رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور راتوں کی تاریکیوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو اور جس قدر عبادتیں فرماتے تھے ان کو ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن نے دیکھ کر یاد رکھا اور ساری امت کو بتا دیا اور گھر کے باہر کی عبادتوں کو حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قیام و قعود، رکوع و سجود اور ان کی کمیات و کیفیات، اذکار اور دعاؤں کے بعینہ الفاظ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادات اور خضوع و خشوع کی کیفیات کو بھی اپنی یادداشت کے خزانوں میں محفوظ کر لیا۔ پھر امت کے سامنے ان عبادتوں کا اس قدر چرچا کیا کہ نہ صرف کتابوں کے اوراق میں وہ محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ امت کے ایک ایک فرد یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کو بھی ان کا علم حاصل ہو گیا اور آج مسلمانوں کا ایک ایک بچہ خواہ وہ کرۂ زمین کے کسی بھی گوشہ میں رہتا ہو اس کو اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عبادتوں کے مکمل حالات معلوم ہیں اور وہ ان عبادتوں پر اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اتباع میں جوش ایمان اور جذبہ عمل کے ساتھ کار بند ہے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عبادتوں کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔
-: نماز
-: نماز
اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب معراج میں نماز پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔ کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت، کبھی آٹھ رکعت، کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔
(صحاح سته وغیره کتب حدیث)
-: روزہ
-: روزہ
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایام بیض کے روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ” صوم وصال ” بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے ؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو (روحانی غذا) کھلاتا اور پلاتا ہے۔
(بخاری و مسلم صوم وصال)
-: زکوٰۃ
-: زکوٰۃ
چونکہ حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر خداوند قدوس نے زکوٰۃ فرض ہی نہیں فرمائی ہے اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر زکوٰۃ فرض ہی نہیں تھی۔
(زرقانی ج۸ ص۹۰)
لیکن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب خدا عزوجل کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کاشانہ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔
(ابو داؤد باب قبول هدایا المشرکین)
-: حج
-: حج
اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو یا تین حج کئے۔
(ترمذی باب کم حج النبی صلی الله تعالٰی علیه وسلم و ابن ماجه)
لیکن ہجرت کے بعد مدینہ منورہ سے ۱۰ ھ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک حج فرمایا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ حج کے علاوہ ہجرت کے بعد آپ نے چار عمرے بھی ادا فرمائے۔
(ترمذی و بخاری و مسلم کتاب الحج)