ہجرت کا تیسرا سال

-: جنگ اُحد

-: مدینہ پر چڑھائی

-: مسلمانوں کی تیاری اور جوش

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے یہود کی امداد کو ٹھکرا دیا

-: بچوں کا جوش جہاد

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میدان جنگ میں

-: جنگ کی ابتداء

-: ابو دجانہ کی خوش نصیبی

-: حضرت حمزہ کی شہادت

-: حضرت حنظلہ کی شہادت

-: ناگہاں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا

-: حضرت مصعب بن عمیر بھی شہید

-: زیاد بن سکن کی شجاعت اور شہادت

-: کھجور کھاتے کھاتے جنت میں

-: لنگڑاتے ہوئے بہشت میں

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زخمی

-: صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا جوش جاں نثاری

جب حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زخمی ہو گئے تو چاروں طرف سے کفار نے آپ پر تیرو تلوار کا وار شروع کر دیااورکفار کا بے پناہ ہجوم آپ کے ہر چہار طرف سے حملہ کرنے لگاجس سے آپ کفار کے نرغہ میں محصور ہو نے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر جان نثار صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کاجوش جاں نثاری سے خون کھولنے لگااور وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر آپ کو بچانے کے لئے اس جنگ کی آگ میں کود پڑے اور آپ کے گرد ایک حلقہ بنا لیا۔ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ جھک کر آپ کے لئے ڈھال بن گئے اور چاروں طرف سے جو تلواریں برس رہی تھیں ان کو وہ اپنی پشت پر لیتے رہے اور آپ تک کسی تلوار یا نیزے کی مار کو پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔ حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ وہ کفار کی تلواروں کے وار کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے یہاں تک کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ کر شل ہو گیااور ان کے بدن پر پینتیس یا اُنتالیس زخم لگے۔غرض جاں نثارصحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانوں کی پروا نہیں کی اور ایسی بہادری اور جاں بازی سے جنگ کرتے رہے کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نشانہ بازی میں مشہور تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اس قدر تیر برسائے کہ کئی کمانیں ٹوٹ گئیں ۔ انہوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے بٹھا لیا تھا تا کہ دشمنوں کے تیر یا تلوارکا کوئی وار آپ پر نہ آ سکے۔ کبھی کبھی آپ دشمنوں کی فوج کو دیکھنے کے لئے گردن اٹھاتے تو حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ گردن نہ اٹھائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ میری پیٹھ کے پیچھے ہی رہیں میرا سینہ آپ کے لئے ڈھال بنا ہوا ہے۔ 1

(بخاری غزوۂ احد ص۵۸۱)

حضرت قتادہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو بچانے کے لئے اپنا چہرہ دشمنوں کے سامنے کئے ہوئے تھے۔ناگہاں کافروں کا ایک تیر ان کی آنکھ میں لگا اور آنکھ بہہ کر ان کے رخسار پر آ گئی۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھ کو اٹھا کرآنکھ کے حلقہ میں رکھ دیااور یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ!عزوجل قتادہ کی آنکھ بچا لے جس نے تیرے رسول کے چہرہ کوبچایا ہے۔ مشہور ہے کہ ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ روشن اورخوبصورت ہوگئی۔ 2

(زُرقانی ج۲ ص۴۲)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی تیر اندازی میں انتہائی با کمال تھے ۔یہ بھی حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مدافعت میں جلدی جلدی تیر چلا رہے تھے اور حضورانورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خود اپنے دست مبارک سے تیر اُٹھا اُٹھا کر ان کو دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ اے سعد!تیر برساتے جاؤتم پر میرے ماں باپ قربان۔ 3

(بخاری غزوۂ احد ص۵۸۰)

ظالم کفار انتہائی بے دردی کے ساتھ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر تیر برسا رہے تھے مگر اس وقت بھی زبان مبارک پر یہ دعا تھی ’’ رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنِ ‘‘ یعنی اے اﷲ!میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں ۔ 4

(مسلم غزوۂ احد ج۲ ص۹۰)

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دندان مبارک کے صدمہ اور چہرۂ انور کے زخموں سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اس حالت میں آپ ان گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گرپڑے جوابوعامرفاسق نے جابجاکھودکران کوچھپادیاتھاتاکہ مسلمان لاعلمی میں ان گڑھوں کے اندر گرپڑیں ۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپکا دست مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبیداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپ کو اٹھایا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خَود (لوہے کی ٹوپی) کی کڑی کا ایک حلقہ جو چہرۂ انور میں چبھ گیا تھا اپنے دانتوں سے پکڑ کر اس زور کے ساتھ کھینچ کر نکالا کہ ان کا ایک دانت ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ پھر دوسرا حلقہ جو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا ۔ چہرۂ انور سے جو خون بہا اس کو حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جوش عقیدت سے چوس چوس کر پی لیااورایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مالک بن سنان! کیا تو نے میرا خون پی ڈالا۔ عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرمایاکہ جس نے میراخون پی لیا جہنم کی کیامجال جواس کوچھوسکے۔5

(زُرقانی ج۲ ص۳۹)

اس حالت میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گئے جہاں کفار کے لئے پہنچنا دشوار تھا۔ ابو سفیان نے دیکھ لیااور فوج لے کر وہ بھی پہاڑ پر چڑھنے لگالیکن حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور دوسرے جان نثار صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے کافروں پر اس زور سے پتھر برسائے کہ ابو سفیان اس کی تاب نہ لا سکااورپہاڑسے اترگیا۔ 6

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں تشریف فرما تھے اور چہرۂ انور سے خون بہہ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہاپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے اور حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالٰی عنہااپنے ہاتھوں سے خون دھو رہی تھیں مگرخون بند نہیں ہوتا تھا بالآخر کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی تو خون فوراً ہی تھم گیا۔ 7

(بخاری غزوۂ احد ج۲ ص۵۸۴)


1 صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب اذھمت طائفتان۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۰۶۴، ج۳، ص۳۸وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ احد، ج۲، ص۴۲۴ 2المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ احد، ج۲، ص۴۳۲ 3 صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب اذھمت۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۰۵۵، ج۳، ص۳۷ 4 صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر ، باب غزوۃ احد ، الحدیث : ۱۷۹۲، ص۹۹۰ 5المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی ، باب غزوۃ احد، ج۲، ص۴۲۴، ۴۲۶ 6 السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، شان عاصم بن ثابت، ص۳۳۳ 7صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۲۶، الحدیث : ۴۰۷۵، ج۳، ص۴۳

-: اابو سفیان کا نعرہ اور اس کا جواب

-: ہند جگر خوار

-: سعد بن الربیع کی وصیت

-: خواتین اسلام کے کارنامے

-: حضرت اُمِ عمارہ کی جاں نثاری بیداری

-: ایک انصاری عورت کا صبر

-: شہدائے کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم

-: قبورِ شہداء کی زیارت

-: حیاتِ شہداء

-: کعب بن اشرف کا قتل

-: غزوہ غطفان

۳ ھ کے واقعات متفرقہ :-