ہجرت کا تیسرا سال

-: جنگ اُحد

-: مدینہ پر چڑھائی

-: مسلمانوں کی تیاری اور جوش

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے یہود کی امداد کو ٹھکرا دیا

-: بچوں کا جوش جہاد

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میدان جنگ میں

-: جنگ کی ابتداء

سب سے پہلے کفارِ قریش کی عورتیں دف بجا بجا کر ایسے اشعار گاتی ہوئی آگے بڑھیں جن میں جنگ ِ بدر کے مقتولین کا ماتم اور انتقامِ خون کا جوش بھرا ہوا تھا۔ لشکر کفار کے سپہ سالار ابو سفیان کی بیوی ’’ہند‘‘ آگے آگے اور کفارِ قریش کے معزز گھرانوں کی چودہ عورتیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں اور یہ سب آواز ملا کر یہ اشعار گا رہی تھیں کہ ؎

نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقْ نَمْشِیْ عَلَی النَّمَارِقْ

ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ہم قالینوں پر چلنے والیاں ہیں

اِنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقْ اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ

اگر تم بڑھ کر لڑو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گے اور پیچھے قدم ہٹایا تو ہم تم سے الگ ہو جائیں گے۔1

مشرکین کی صفوں میں سے سب سے پہلے جو شخص جنگ کے لئے نکلا وہ ’’ابو عامر اوسی‘‘ تھا۔ جس کی عبادت اور پارسائی کی بنا پر مدینہ والے اس کو ’’راہب‘‘کہا کرتے تھے مگر رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کا نام ’’فاسق‘‘ رکھا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ شخص اپنے قبیلہ اوس کا سردار تھااور مدینہ کا مقبول عام آدمی تھا۔ مگر جب رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو یہ شخص جذبۂ حسد میں جل بھن کر خدا کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مخالفت کرنے لگااور مدینہ سے نکل کر مکہ چلا گیا اور کفارِ قریش کو آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔اس کو بڑا بھروسا تھا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ چنانچہ اس نے میدان میں نکل کر پکارا کہ اے انصار!کیا تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں ابو عامر راہب ہوں ۔ انصار نے چلا کر کہاہاں ہاں !اے فاسق!ہم تجھ کو خوب پہچانتے ہیں ۔ خدا تجھے ذلیل فرمائے۔ ابو عامر اپنے لئے فاسق کا لفظ سن کر تلملا گیا۔ کہنے لگا کہ ہائے افسوس ! میرے بعدمیری قوم بالکل ہی بدل گئی ۔پھرکفارِقریش کی ایک ٹولی جو اس کے ساتھ تھی مسلمانوں پر تیربرسانے لگی۔اس کے جواب میں انصارنے بھی اس زور کی سنگ باری کی کہ ابوعامراوراس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے 2

(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)

لشکر کفار کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ صف سے نکل کر میدان میں آیا اور کہنے لگا کہ کیوں مسلمانو!تم میں کوئی ایسا ہے کہ یا وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھ سے وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کا یہ گھمنڈ سے بھرا ہوا کلام سن کر حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایاکہ ہاں ’’میں ہوں ‘‘ یہ کہہ کر فاتح خیبر نے ذُوالفقار کے ایک ہی وار سے اُس کا سرپھاڑدیااور وہ زمین پر تڑپنے لگااور شیر خدا منہ پھیرکر وہاں سے ہٹ گئے۔لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کا سرکیوں نہیں کاٹ لیا ؟ شیرخدا نے فرمایاکہ جب وہ زمین پر گرا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی اور وہ مجھے قسم دینے لگا کہ مجھے معا ف کر دیجیے اس بے حیاکو بے ستردیکھ کرمجھے شرم دا منگیر ہو گئی اس لئے میں نے منہ پھیرلیا۔3

(مدارج ج۲ ص۱۱۶)

طلحہ کے بعداس کابھائی عثمان بن ابوطلحہ رجزکایہ شعرپڑھتاہواحملہ آورہوا کہ ؎

اِنَّ عَلٰی اَھْلِ اللِّوَاءِ حَقًّا!

اَنْ یَّخْضِبَ اللِّوَاءَ اَوْ تَنْدَقَّا

علمبردار کافرض ہے کہ نیزہ کو خون میں رنگ دے یا وہ ٹکرا کر ٹوٹ جائے۔

حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اس کے مقابلہ کے لئے تلوار لے کر نکلے اور اس کے شانے پر ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ تلوار ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتی ہوئی کمر تک پہنچ گئی اور آپ کے منہ سے یہ نعرہ نکلا کہ

اَنَا ابْنُ سَاقِی الْحَجِیْجِ

میں حاجیوں کے سیراب کرنے والے عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔4

(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)

اس کے بعد عام جنگ شروع ہو گئی اور میدان جنگ میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔


1کتاب المغازی للواقدی، غزوۃ احد، ج۱، ص۲۲۵ 2مدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲، ص۱۱۶ 3مدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲، ص۱۱۶ 4مدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲، ص۱۱۶

-: ابو دجانہ کی خوش نصیبی

-: حضرت حمزہ کی شہادت

-: حضرت حنظلہ کی شہادت

-: ناگہاں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا

-: حضرت مصعب بن عمیر بھی شہید

-: زیاد بن سکن کی شجاعت اور شہادت

-: کھجور کھاتے کھاتے جنت میں

-: لنگڑاتے ہوئے بہشت میں

-: تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زخمی

-: صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا جوش جاں نثاری

-: اابو سفیان کا نعرہ اور اس کا جواب

-: ہند جگر خوار

-: سعد بن الربیع کی وصیت

-: خواتین اسلام کے کارنامے

-: حضرت اُمِ عمارہ کی جاں نثاری بیداری

-: ایک انصاری عورت کا صبر

-: شہدائے کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم

-: قبورِ شہداء کی زیارت

-: حیاتِ شہداء

-: کعب بن اشرف کا قتل

-: غزوہ غطفان

۳ ھ کے واقعات متفرقہ :-