ہجرت کا پہلا سال

-: مسجد قباء

-: مسجد الجمعہ

-: ابو ایوب انصاری کا مکان

-: حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام

-: حضور کے اہل و عیال مدینہ میں

-: مسجد نبوی کی تعمیر

-: ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے مکانات

-: مہاجرین کے گھر

-: حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی رُخصتی

-: اذان کی ابتداء

-: انصار و مہاجر بھائی بھائی

-: یہودیوں سے معاہدہ

-: مدینہ کے لئے دُعا

-: حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے

-: نمازوں کی رکعت میں اضافہ

-: تین جاں نثاروں کی وفات

اس سال حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم میں سے تین نہایت ہی شاندار اور جاں نثار حضرات نے وفات پائی جو درحقیقت اسلام کے سچے جاں نثار اور بہت ہی بڑے معین و مددگار تھے۔

اوّل :حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ وہ خوش نصیب مدینہ کے رہنے والے انصاری ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب ہجرت فرما کر ’’قبا‘‘ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے انہی کے مکان کو شرفِ نزول بخشا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے دونوں عالم کے میزبان کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت کے صفحات پر ان کا نام نامی ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔

دوم :حضرت برا ء بن معرور انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ وہ شخص ہیں کہ ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ میں سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ اپنے قبیلہ ’’خزرج‘‘ کے نقیبوں میں تھے۔

سوم :حضرت اسعد بن زرارہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ بیعتِ عقبۂ اولیٰ اور بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں شامل رہے اور یہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کا ڈنکا بجایا اور ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔

جب مذکورہ بالا تینوں معززین صحابہ نے وفات پائی تو منافقین اور یہودیوں نے اس کی خوشی منائی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو طعنہ دینا شروع کیا کہ اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اﷲ تعالٰی ان کو یہ صدمات کیوں پہنچاتا؟ خدا کی شان کہ ٹھیک اسی زمانے میں کفار کے دوبہت ہی بڑے بڑے سردار بھی مر کر مردار ہو گئے۔ ایک ’’عاص بن وائل سہمی‘‘ جو حضرت عمرو بن العاص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ فاتح مصر کا باپ تھا۔ دوسرا ’’ولید بن مغیرہ‘‘ جو حضرت خالد سیف اﷲ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا باپ تھا۔1

روایت ہے کہ ’’ولید بن مغیرہ‘‘ جاں کنی کے وقت بہت زیادہ بے چین ہو کر تڑپنے اور بے قرار ہو کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا توابوجہل نے پوچھا کہ چچا جان! آخر آپ کی بے قراری اور اس گریہ و زاری کی کیا و جہ ہے؟ تو ’’ولید بن مغیرہ‘‘ بولا کہ میرے بھتیجے! میں اس لئے اتنی بے قراری سے رو رہا ہوں کہ مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) کا دین پھیل جائے گا ۔یہ سن کر ابو سفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا! آپ ہر گزہر گز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ میں نہیں پھیلنے دوں گا۔2 چنانچہ ابو سفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے مگر فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق الاسلام بن گئے کہ اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے اور انہی جہادوں میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی ۔یہی وہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۷۳ وغیرہ)

اسی سال ۱ ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں سب سے پہلا بچہ جو پیدا ہوا وہ یہی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔ ان کی والدہ حضرت بی بی اسماء جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صاحبزادی ہیں پیدا ہوتے ہی ان کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں ۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈال دی۔ اس طرح سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں پہنچی وہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا لعابِ دہن تھا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی پیدائش سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اس لئے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے مہاجرین پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان لوگوں کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔3

(زرقانی ج۱ ص۴۶۰ و اکمال)


1مدارج النبوت ، قسم سوم ، با ب اول، ج۲، ص۷۳ملخصاً 2مدارج النبوت ، قسم سوم ، با ب اول، ج۲، ص۷۳ 3اکمال فی اسماء الرجال لصاحب المشکوٰۃ، حرف العین ، ص۶۰۴والسیرۃ الحلبیۃ، باب ہجرۃ الی المدینۃ، ج۲، ص۱۱۰