ہجرت کا پہلا سال

-: مسجد قباء

-: مسجد الجمعہ

-: ابو ایوب انصاری کا مکان

-: حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام

-: حضور کے اہل و عیال مدینہ میں

-: مسجد نبوی کی تعمیر

-: ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے مکانات

-: مہاجرین کے گھر

-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رُخصتی

-: اذان کی ابتداء

مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان کردے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں ۔ چنانچہ وہ ’’اَلصَّلٰوۃُجامعۃٌ‘‘ کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظر آئے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو منجانب اﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں ۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔1

(زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)


1 المواہب اللدنیۃ والزرقانی، باب بدء الاٰذان ، ج۲، ص۱۹۴۔۱۹۷ملخصاً

-: انصار و مہاجر بھائی بھائی

-: یہودیوں سے معاہدہ

-: مدینہ کے لئے دُعا

-: حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے

-: نمازوں کی رکعت میں اضافہ

-: تین جاں نثاروں کی وفات