r About Muhammad | حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

-: حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت سودہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہااور

-: حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے والد ماجد امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں جو ایک مشہورصحابیہ ہیں ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی ا ور انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ طیبہ کو ہجرت بھی کی تھی لیکن ان کے شوہر جنگ بدر یا جنگ احد میں زخمی ہو کر وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہو گئیں پھر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ۳ھ میں ان سے نکاح فرمایا اور یہ ام المؤمنین کی حیثیت سے کاشانۂ نبوی کی سکونت سے مشرف ہوگئیں ۔

یہ بہت ہی شاندار، بلندہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں ۔ حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں ۔ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی اسی لئے حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہروقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی کسی سخت کلامی سے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بار بار ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو، خبردار کبھی حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرنا نہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی کبھی ہر گز ہر گز دل آزاری کرنا ورنہ یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تم سے ناراض ہو گئے تو تم خدا کے غضب میں گرفتار ہو جاؤ گی۔

یہ بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں ۔ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں ۔

علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت مشہور ہیں ۔ شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دیئے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے پہلومیں مدفون ہوئیں ۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔ 1

(زرقانی جلد۳ ص۲۳۶ تا ۲۳۸)


-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا