r About Muhammad | حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

-: حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت سودہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہااور

-: حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہیں ’’غزوہ مریسیع‘‘ میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے تھے ان ہی قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہابھی تھیں ۔ جب قیدیوں کو لونڈی غلام بنا کر مجاہدین پر تقسیم کر دیا گیا تو حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہاحضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ انہوں نے ان سے مکاتبت کر لی یعنی یہ لکھ کر دے دیا کہ تم اتنی اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہابارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) میں اپنے قبیلے کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہو چکی ہوں ۔ ثابت بن قیس نے مجھے مکاتبہ بنا دیا ہے مگر میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بدل کتابت ادا کرکے آزاد ہو جاؤں اس لئے آپ اس وقت میں میری مالی امداد فرمائیں کیونکہ میرا تمام خاندان اس جنگ میں گرفتار ہو چکا ہے اور ہمارے تمام مال و سامان مسلمانوں کے ہاتھوں میں مال غنیمت بن چکے ہیں اور میں اس وقت بالکل ہی مفلسی و بے کسی کے عالم میں ہوں ۔ حضوررحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو ان کی فریاد سن کر ان پر رحم آگیا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم اس کو منظور کر لو گی؟

انہوں نے پوچھا کہ یارسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) آپ میرے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے بدل کتابت کی تمام رقم میں خود تمہاری طرف سے ادا کر دوں اور پھر تم کو آزاد کرکے میں خود تم سے نکاح کر لوں تا کہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار برقرار رہ جائے۔ یہ سن کر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اس اعزاز کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بدل کتابت کی ساری رقم ادا فرما کر اور ان کو آزاد کرکے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن میں شامل فرما لیا اور یہ ام المؤمنین کے اعزاز سے سرفراز ہو گئیں ۔

جب اسلامی لشکر میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے نکاح فرما لیا تو تمام مجاہدین ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے نکاح فرما لیا اس خاندان کا کوئی فرد لونڈی غلام نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام مجاہدین اسلام کے قبضہ میں تھے فوراً ہی سب کے سب آزاد کر دیئے گئے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہایہ فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ کے نکاح سے بڑھ کر مبارک نہیں ثابت ہواکیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندان بنی مصطلق کو غلامی سے نجات حاصل ہو گئی۔ 1

(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)

حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے میرے قبیلے میں تشریف لانے سے تین رات پہلے میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر پڑا میں نے کسی سے اس خواب کاتذکرہ نہیں کیا لیکن جب رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہی اس خواب کی تعبیر ہے۔ 2

(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)

ان کا اصلی نام ’’برہ‘‘ (نیکوکار) تھا لیکن چونکہ اس نام سے بزرگی اور بڑائی کا اظہار ہوتا تھا اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کا نام بدل کر ’’جویریہ‘‘ (چھوٹی لڑکی) رکھ دیا یہ بہت ہی عبادت گزار عورت تھیں نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ اپنے ورد و وظائف میں مشغول رہا کرتی تھیں۔3

(مدارج جلد۲ ص۴۷۹)

حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے دو بھائی عمرو بن الحارث اور عبداﷲ بن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث یہ تینوں بھی مسلمان ہوکرشرف صحابیت سے سربلندہوئے۔

ان کے بھائی عبداﷲ بن حارث کے اسلام لانے کا واقعہ بہت ہی تعجب خیز بھی ہے اور دلچسپ بھی، یہ اپنی قوم کے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ چند اونٹنیاں اور لونڈی تھی۔ انہوں نے ان سب کو ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا دیا اور تنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم قیدیوں کے فدیہ کے لئے کیا لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری وہ اونٹنیاں کیا ہوئیں ؟ اور تمہاری وہ لونڈی کدھر گئی؟ جسے تم فلاں گھاٹی میں چھپا کر آئے ہو۔ زبان رسالت سے یہ علم غیب کی خبر سن کر عبداﷲ بن حارث حیران رہ گئے کہ آخر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو میری لونڈی اور اونٹنیوں کی خبر کس طرح ہو گئی ایک دم ان کے اندھیرے دل میں حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی صداقت اور آپ کی نبوت کا نور چمک اٹھا اور وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ 4

(کتاب الاستیعاب)

حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے سات حدیثیں بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری شریف میں اور دو حدیثیں مسلم شریف میں ہیں باقی تین حدیثیں دوسری کتابوں میں مذکور ہیں ۔ اور حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے حضرت طفیل رضی اﷲ تعالٰی عنہم وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔ 5

( مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۱وزرقانی جلد۳ص۲۵۵ )

۵۰ھ میں پینسٹھ برس کی عمر پا کر انہوں نے مدینہ طیبہ میں وفات پائی اور حاکم مدینہ مروان نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع کے قبرستان میں مدفون ہوئیں ۔

(زرقانی جلد ۳ ص ۲۵۵ و مدارج النبوۃجلد ۲ ص ۴۸۱)


-: حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا