r About Muhammad | حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

-: حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت سودہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہااور

-: حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ان کا اصلی نام زینب تھا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کا نام ’’صفیہ‘‘ رکھ دیا۔ یہ یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں اور ان کی ماں کا نام ضرہ بنت سموئل ہے۔ یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس اعظم تھا جو جنگ خیبر میں قتل ہو گیا۔

محرم ۷ھ میں جب خیبرکومسلمانوں نے فتح کر لیااورتمام اسیران جنگ گرفتار کرکے اکٹھا جمع کئے گئے تو اس وقت حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایک لونڈی طلب کی، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پسند سے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو لے لیامگر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) حضرت صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شاہ زادی ہیں ۔ ان کے خاندانی اعزاز کا تقاضا ہے کہ آپ ان کو اپنی ازواجِ مطہرات میں شامل فرما لیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے لے لیا اور ان کے بدلے میں انہیں ایک دوسری لونڈی عطا فرما دی پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا اور جنگ خیبر سے واپسی میں تین دنوں تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ کے اندر اپنی قربت سے سرفراز فرمایا اور دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو کھلایا جس کا مفصل تذکرہ جنگ خیبر میں گزر چکا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاپر بہت ہی خصوصی توجہ اور انتہائی کریمانہ عنایت فرماتے تھے اور اس قدر ان کا خیال رکھتے تھے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاپر غیرت سوار ہو جایا کرتی تھی۔

منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے بارے میں یہ کہہ دیا کہ ’’وہ تو پستہ قد ہے‘‘ تو حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر تیرے اس کلام کو دریا میں ڈال دیا جائے تو دریا متغیر ہو جائے گا۔(یعنی یہ غیبت ہے جو بہت ہی گندی بات ہے) اسی طرح ایک مرتبہ ایک سفر میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا اونٹ زخمی ہوگیا اور حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہاکے پاس ایک فاضل اونٹ تھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے زینب! تم اپنا اونٹ صفیہ کو دے دو۔ حضرت زینب نے طیش میں آکر کہہ دیا کہ میں اس یہودیہ کو اپنی کوئی چیز نہیں دوں گی۔ یہ سن کر حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہاپر اس قدر خفا ہو گئے کہ دو تین ماہ تک ان کے بستر پر آپ نے قدم نہیں رکھا۔ 1

(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۳)

ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہارو رہی ہیں آپ نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں دربار رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں کیونکہ ہمارا خاندان حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے ملتا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام میرے باپ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم میرے شوہر ہیں ۔ 2

(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹)

انہوں نے دس حدیثیں بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے روایت کی ہیں جن میں سے ایک حدیث بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہے اور باقی نو حدیثیں دوسری کتابوں میں درج ہیں ۔

ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے و اقدی کا قول ہے کہ ۵۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ ۵۲ ھ میں ان کا انتقال ہوا ۔ بوقت رحلت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی یہ بھی مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں ۔ 3

(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹ و مدارج جلد۲ ص۴۸۳)

یہ شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی وہ گیارہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن ہیں جن پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ان میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا تو ہجرت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا تھااورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہاجن کا لقب ’’ام المساکین ‘‘ ہے۔ ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ نکاح کے دو تین ماہ بعد حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے ہی یہ وفات پا گئی تھیں ۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رحلت کے وقت آپ کی نو بیویاں موجود تھیں جن میں سے آٹھ کی آپ باریاں مقرر فرماتے رہے کیونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکو ہبہ کردیا تھا۔ ان نو مقدس ازواج میں سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رحلت کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہانے وفات پائی اور سب کے بعد آخر میں ۶۲ھ یا ۶۳ھ میں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے رحلت فرمائی ان کی وفات کے بعد دنیا امہات المؤمنین سے خالی ہو گئی۔