اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن
- حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا
- حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا
- حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا
-: حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ان کے مولیٰ کے ان پرکروڑوں درود
ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام
پارہائے صحف غنچہائے قدس
اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام
اہل اسلام کی مادرانِ شفیق
بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نسبت مبارکہ کی و جہ سے ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئیں جن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعت شان کا بیان ہے۔ چنانچہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ 1 (احزاب)
اے نبی کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اﷲ سے ڈرو۔
دوسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ
وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ 2 (احزاب)
اور اس(نبی) کی بیویاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں ۔
یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مقدس بیویاں دو باتوں میں حقیقی ماں کے مثل ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کسی کا نکاح جائز نہیں ۔ دوم یہ کہ ان کی تعظیم و تکریم ہر امتی پر اسی طرح لازم ہے جس طرح حقیقی ماں کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ لیکن نظر اورخلوت کے معاملہ میں ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کا حکم حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ کا ارشاد ہے کہ
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ 3 (احزاب)
جب نبی کی بیویوں سے تم لوگ کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔
مسلمان اپنی حقیقی ماں کو تو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کر سکتا ہے مگر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مقدس بیویوں سے ہر مسلمان کے لئے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں انکے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔
اسی طرح حقیقی ماں کے ماں باپ، لڑکوں کے نانی نانا اور حقیقی ماں کے بھائی بہن، لڑکوں کے ماموں اور خالہ ہوا کرتے ہیں مگر ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے ماں باپ امت کے نانی نانا اور ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے بھائی بہن امت کے ماموں خالہ نہیں ہوا کرتے۔
یہ حکم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ان تمام ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے لئے ہے جن سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نکاح فرمایا، چاہے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم و واجب الاحترام ہیں ۔ 4
(زرقانی جلد۳ ص۲۱۶)
ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کی تعداد اور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے مگر گیارہ اُمہات المؤمنین رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے ہی انتقال ہو گیا تھا مگر نو بیویاں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وفاتِ اقدس کے وقت موجود تھیں ۔
ان گیارہ اُمت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم و چراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں :
(۱) خدیجہ بنت خویلد(۲) عائشہ بنت ابوبکرصدیق(۳) حفصہ بنت عمرفاروق (۴)اُمِ حبیبہ بنت ابو سفیان(۵)اُمِ سلمہ بنت ابو امیہ(۶) سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ تعالٰی عنہن
اورچارازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں : (۱)زینب بنت جحش(۲) میمونہ بنت حارث(۳) زینب بنت خزیمہ ’’ام المساکین‘‘ (۴) جویریہ بنت حارث اور ایک بیوی یعنی صفیہ بنت حیی یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں ۔
اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔ 5
(زرقانی جلد۳ ص۲۱۸ تا ۲۱۹)
یہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سب سے پہلی رفیقۂ حیات ہیں ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ یہ خاندان قریش کی بہت ہی معزز اور نہایت ہی دولت مند خاتون تھیں ۔ ہم اِس کتاب کے تیسرے باب میں لکھ چکے ہیں کہ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی بنا پر انکو ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ انہوں نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اخلاق و عادات اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کو دیکھ کر خود ہی حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے نکاح کی رغبت ظاہر کی اور پھر باقاعدہ نکاح ہو گیا جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ علامہ ابن اثیر اور امام ذہبی کا بیان ہے کہ اس بات پر تمام اُمت کا اجماع ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر سب سے پہلے یہی ایمان لائیں اور ابتداء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا تھا ایسے کٹھن وقت میں صرف انہیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مونس حیات بن کر تسکین خاطر کا باعث تھی۔ انہوں نے اتنے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن من دھن سے بارگاہ نبوت میں اپنی قربانی پیش کی اس خصوصیت میں تمام ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن پر ان کو ایک خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ ولی الدین عراقی کا بیان ہے کہ قول صحیح اور مذہب مختار یہی ہے کہ امہات المؤمنین میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسب سے زیادہ افضل ہیں ۔
ان کے فضائل میں چند حدیثیں وارد بھی ہوئی ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے اورعرض کیا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا ہے۔ جب یہ آپ کے پاس آ جائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیں اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔ 6
(بخاری جلد۱ص۵۳۹ باب تزویج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )
امام احمد و ابو داؤد و النسائی، حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم و حضرت آسیہ ہیں۔ 7 (رضی اﷲ تعالٰی عنہن)
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴)
اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی بہت زیادہ تعریف سنی تو انہیں غیرت آ گئی اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب تو اﷲ تعالٰی نے آپ کو ان سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ 8
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بہت زیادہ ان کا ذکر ِخیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تھے توکچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑ جایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ ’’دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں ۔‘‘ میرا یہ جملہ سن کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں وہ تھیں انہیں کے شکم سے تو اﷲ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ 9
(بخاری جلد۱ ص۵۳۹ ذکر خدیجہ)
امام طبرانی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا۔ اس حدیث کو امام سہیلی نے بھی نقل فرمایا ہے۔ 10
(زرقانی جلد۳ص ۲۲۶)
حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاپچیس سال تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت گزاری سے سرفراز رہیں ، ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ معظمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ 11
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۷ و اکمال فی اسماء الرجال ص۵۹۳)
1
پ ۲۲، الاحزاب : ۳۲
2
پ ۲۱، الاحزاب : ۶
3
پ ۲۲، الاحزاب : ۵۳
4
المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب فی ذکر ازواجہ۔۔۔الخ ، ج۴، ص۳۵۶۔۳۵۷
5
المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب فی ذکرازواجہ الطاہرات۔۔۔الخ، ج۴، ص۳۵۹۔۳۶۲
6
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب تزویج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۸۲۰، ج۲، ص ۵۶۵ والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب خدیجۃ ام المؤمنین، ج۴، ص۳۶۳۔۳۶۵، ۳۷۱
7
المسندللامام احمد بن حنبل، مسندعبداللّٰہ ابن عباس، الحدیث : ۲۹۰۳، ج۱، ص۶۷۸
8
المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۲
9
صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب تزویج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم خدیجۃ۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۸۱۸، ج۲، ص۵۶۵
10
شرح الزرقانی علی المواہب ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۶
11
المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۶ والاکمال فی اسماء الرجال، حرف الخاء ، خدیجۃ بنت خویلد، ص۵۹۳
-: حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
ان کے والد کا نام ” زمعہ ” اور ان کی والدہ کا نام شموس بنت قیس بن عمرو ہے۔ یہ پہلے اپنے چچا زاد بھائی سکران بن عمرو سے بیاہی گئی تھیں۔ یہ میاں بیوی دونوں ابتدائے اسلام میں ہی مسلمان ہو گئے تھے اور ان دونوں نے حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی، لیکن جب حبشہ سے واپس آ کر یہ دونوں میاں بیوی مکہ مکرمہ آئے تو ان کے شوہر سکران بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہوگئیں ان کے ایک لڑکا بھی تھا جن کا نام “عبدالرحمن” تھا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک خواب دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پیدل چلتے ہوئے ان کی طرف تشریف لائے اور ان کی گردن پر اپنا مقدس پا ؤں رکھ دیا۔ جب حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں یقینا عنقریب ہی مر جاؤں گا اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تجھ سے نکاح فرمائیں گے۔ اس کے بعد دوسری رات میں حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاند ٹوٹ کر ان کے سینے پر گرا ہے صبح کو انہوں نے اس خواب کا بھی اپنے شوہر سے ذکر کیا تو ان کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چونک کر کہا کہ اگر تیرایہ خواب سچا ہے تو میں اب بہت جلد انتقال کر جاؤں گا اور تم میرے بعد حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے نکاح کرو گی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اسی دن حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وفات پا گئے۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۷)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات سے ہر وقت بہت زیادہ مغموم اور اداس رہا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست پیش کی کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) آپ حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح فرمالیں تا کہ آپ کا خانہ معیشت آباد ہو جائے اور ایک وفادار اور خدمت گزار بیوی کی صحبت و رفاقت سے آپ کا غم مٹ جائے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا۔ چنانچہ حضرت خولہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت سودہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے باپ سے بات چیت کر کے نسبت طے کرا دی اور نکاح ہو گیا اور یہ اُمہات المؤمنین کے زمرے میں داخل ہو گئیں اور اپنی زندگی بھر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور انتہائی والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی وفادار اور خدمت گزار رہیں ۔ یہ بہت ہی فیاض اور سخی تھیں ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا ان کی خدمت میں بھیجا آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لانے والے نے بتایا کہ درہم ہیں۔ آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ بھلا درہم کھجوروں کے تھیلے میں بھیجے جاتے ہیں یہ کہا اور اٹھ کر اسی وقت ان تمام درہموں کو مدینہ کے فقرا و مساکین پر تقسیم کر دیا۔
حدیث کی مشہور کتابوں میں ان کی روایت کی ہوئی پانچ حدیثیں مذکور ہیں جن میں سے ایک حدیث بخاری شریف میں بھی ہے حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن رضی اﷲ تعالٰی عنہما ان کے شاگردوں میں بہت ہی ممتاز ہیں۔
ان کی وفات کے سال میں مختلف اور متضاد اقوال ہیں،امام ذہبی اور امام بخاری نے اس روایت کو صحیح بتایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آخری دور خلافت ۲۳ ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی لیکن و اقدی نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ان کی وفات کا سال ۵۴ ھ ہے اور صاحب اکمال نے بھی ان کا سنہ وفات شوال ۵۴ ھ ہی تحریر کیا ہے مگر حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تقریب التہذیب میں یہ لکھا ہے کہ ان کی وفات شوال ۵۵ ھ میں ہوئی ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۲۹ و اکمال ص ۵۹۹)
-: حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہااور

-: حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہااور
یہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نورِ نظر اور دخترنیک اختر ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام “اُمِ رُومان” ہے یہ چھ برس کی تھیں جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح فرمایا اور شوال ۲ ھ میں مدینہ منورہ کے اندر یہ کاشانہ نبوت میں داخل ہو گئیں اور نو برس تک حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی صحبت سے سرفراز رہیں۔ ازواجِ مطہرات میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین بیوی تھیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ جب میرے ساتھ بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الٰہی اترتی رہتی ہے۔
(بخاری جلد۱ ص۵۳۲ فضل عائشه)
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا کہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اﷲ تعالٰی کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔
(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۷۳)
فقہ و حدیث کے علوم میں ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے اندران کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ دوہزار دو سو دس حدیثیں انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں۔ ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں سے ایک سو چوہتر حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہیں اور چون حدیثیں ایسی ہیں جو صرف بخاری شریف میں ہیں اور اڑسٹھ حدیثیں وہ ہیں جن کو صرف امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں تحریر کیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔
ابن سعد نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام ازواجِ مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری ازواجِ مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں۔
(۱) حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
(۲) میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔
(۳) اﷲ تعالٰی نے میری برأ ت اور پاک دامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔
(۴)نکاح سے قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔
(۵)میں اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کرغسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔
(۶)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نمازتہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی اُمہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی۔
(۷)میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ وہ اعزاز خداوندی ہے جو میرے سواحضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔
(۸)وفات اقدس کے وقت میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی گود میں لئے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سر انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
(۹)حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے میری باری کے دن وفات پائی۔
(۱۰)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی قبر انور خاص میرے گھر میں بنی۔
(زرقانی جلد۳ ص۳۲۳)
عبادت میں بھی آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کا مرتبہ بہت ہی بلند ہے آپ کے بھتیجے حضرت امام قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روزانہ بلاناغہ نماز تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں۔
سخاوت اور صدقات و خیرات کے معاملہ میں بھی تمام اُمہات المؤمنین رضی اﷲ تعالٰی عنہن میں خاص طور پر بہت ممتاز تھیں۔ اُمِ دُرّہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس تھی اس وقت ایک لاکھ درہم کہیں سے آپ کے پاس آیا آپ نے اسی وقت ان سب درہموں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا اور ایک درہم بھی گھر میں باقی نہیں چھوڑا۔ اس دن میں وہ روزہ دار تھیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے سب درہموں کو بانٹ دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں رکھا تا کہ آپ گوشت خرید کر روزہ افطار کرتیں تو آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ تم نے اگر مجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ایک درہم کا گوشت منگا لیتی۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما جو آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے بھانجے تھے ان کا بیان ہے کہ فقہ و حدیث کے علاوہ میں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) سے بڑھ کر کسی کو اشعار عرب کا جاننے والا نہیں پایا وہ دوران گفتگو میں ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیا کرتی تھیں جو بہت ہی بر محل ہوا کرتا تھا۔
علم طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طبی معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ہو جایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اطباء آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی تھی اس لئے مجھے طبی معلومات بھی حاصل ہو گئیں۔
آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔
۱۷ رمضان شب سہ شنبہ ۵۷ ھ یا ۵۸ ھ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کا وصال ہوا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔
(اکمال و حاشيه اکمال ص۶۱۲ و زرقانی جلد۳ ص۲۳۴ تا ۲۳۵)
-: حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے والد ماجد امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں جو ایک مشہورصحابیہ ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی اور انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ طیبہ کو ہجرت بھی کی تھی لیکن ان کے شوہر جنگ بدر یا جنگ احد میں زخمی ہو کر وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہو گئیں پھر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ۳ ھ میں ان سے نکاح فرمایا اور یہ ام المؤمنین کی حیثیت سے کاشانۂ نبوی کی سکونت سے مشرف ہوگئیں۔
یہ بہت ہی شاندار،بلند ہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں۔ حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی اسی لئے حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی کسی سخت کلامی سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بار بار ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو، خبردار کبھی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرنا نہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کبھی ہر گز ہر گز دل آزاری کرنا ورنہ یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تم سے ناراض ہو گئے تو تم خدا کے غضب میں گرفتار ہو جاؤ گی۔
یہ بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں۔
علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت مشہور ہیں۔ شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دیئے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے پہلو میں مدفون ہوئیں۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۳۶ تا ۲۳۸)
-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
ان کا نام ہند ہے اور کنیت ” اُمِ سلمہ ” ہے مگر یہ اپنی کنیت کے ساتھ ہی زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے باپ کا نام” حذیفہ ” اور بعض مؤرخین کے نزدیک ” سہل ” ہے مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان کی والدہ “عاتکہ بنت عامر” ہیں۔ ان کا نکاح پہلے حضرت ابوسلمہ عبداﷲ بن عبدالاسد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا تھا جو حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے۔ یہ دونوں میاں بیوی اعلانِ نبوت کے بعد جلد ہی دامن اسلام میں آ گئے تھے اور سب سے پہلے ان دونوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی پھر یہ دونوں حبشہ سے مکہ مکرمہ آ گئے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اونٹ پر کجاوہ باندھا اور حضرت بی بی اُمِ سلمہ اور اپنے فرزند سلمہ کو کجاوہ میں سوار کر دیا مگر جب اونٹ کی نکیل پکڑ کر حضرت ابو سلمہ روانہ ہوئے تو حضرت اُمِ سلمہ کے میکے والے بنو مغیرہ دوڑ پڑے اور ان لوگوں نے یہ کہا کہ ہم اپنے خاندان کی اس لڑکی کو ہر گز ہر گز مدینہ نہیں جانے دیں گے اور زبردستی ان کو اونٹ سے اتار لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاندانی لوگوں کو بھی طیش آ گیا اور ان لوگوں نے غضب ناک ہو کر کہا کہ تم لوگ اُمِ سلمہ کو محض اس بنا پر روکتے ہو کہ یہ تمہارے خاندان کی لڑکی ہے تو ہم اس کے بچہ ” سلمہ ” کو ہرگز ہرگز تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے اس لئے کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ایک فرد ہے۔ یہ کہہ کر ان لوگوں نے بچہ کو اس کی ماں کی گود سے چھین لیا مگر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہجرت کا ارادہ ترک نہیں کیا بلکہ بیوی اور بچہ دونوں کو چھوڑ کر تنہا مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے شوہر اوربچے کی جدائی پر صبح سے شام تک مکہ کی پتھریلی زمین میں کسی چٹان پر بیٹھی ہوئی تقریباً سات دنوں تک زار و قطار روتی رہیں ان کا یہ حال دیکھ کر ان کے ایک چچا زاد بھائی کو ان پر رحم آ گیا اور اس نے بنو مغیرہ کو سمجھا بجھا کر یہ کہا کہ آخر اس مسکینہ کو تم لوگوں نے اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا ہے؟ تم لوگ کیوں نہیں اس کو اجازت دے دیتے کہ وہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی جائے۔ بالآخر بنو مغیرہ اس پر رضامند ہو گئے کہ یہ مدینہ چلی جائے۔ پھر حضرت ابوسلمہ کے خاندان والے بنو عبدالاسد نے بھی بچے کو حضرت اُمِ سلمہ کے سپرد کر دیا اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بچہ کو گود میں لے کر اونٹ پر سوار ہو گئیں اور اکیلی مدینہ کو چل پڑیں مگر جب مقام ” تنعیم ” میں پہنچیں تو عثمان بن طلحہ سے ملاقات ہوگئی جو مکہ کا مانا ہوا ایک نہایت ہی شریف انسان تھا اس نے پوچھا کہ اے اُمِ سلمہ! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں۔ اس نے کہاکہ کیا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہے؟ حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے درد بھری آواز میں جواب دیا کہ نہیں میرے ساتھ اﷲ اور میرے اس بچہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہ سن کر عثمان بن طلحہ کی رگ شرافت پھڑک اُٹھی اور اس نے کہا کہ خداکی قسم! میرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ تمہاری جیسی ایک شریف زادی اور ایک شریف انسان کی بیوی کو تنہا چھوڑ دوں۔ یہ کہہ کر اس نے اونٹ کی مہار اپنے ہاتھ میں لے لی اور پیدل چلنے لگا حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا۔ جب ہم کسی منزل پر اترتے تو وہ الگ کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا اور میں اپنے اونٹ کے پاس سو رہتی۔ پھر روانگی کے وقت جب میں اپنے بچہ کو گود میں لے کر اونٹ پرسوارہو جاتی تو وہ اونٹ کی مہار پکڑ کر چلنے لگتا۔ اسی طرح اس نے مجھے قبا تک پہنچا دیا اور وہاں سے وہ یہ کہہ کر مکہ چلا گیا کہ اب تم چلی جاؤ تمہارا شوہر اسی گاؤںمیں ہے۔ چنانچہ حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا اس طرح بخیریت مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۳۹)
یہ دونوں میاں بیوی عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہنے لگے مگر ۴ ہجری میں جب ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہو گیا تو باوجودیکہ ان کے چند بچے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرما لیا اور یہ اپنے بچوں کے ساتھ کاشانہ نبوت میں رہنے لگیں اور ام المؤمنین کے معزز لقب سے سرفراز ہو گئیں۔
حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں۔ امام الحرمین کا بیان ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے سوا کسی عورت کو نہیں جانتا کہ اس کی رائے ہمیشہ درست ثابت ہوئی ہو۔ صلح حدیبیہ کے دن جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کر کے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ واپس چلے جائیں کیونکہ اسی شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے۔ تو لوگ اس قدر رنج و غم میں تھے کہ ایک شخص بھی قربانی کے لئے تیار نہیں تھا ۔حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے اس طرزِ عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور آپ نے معاملہ کا حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ رائے دی کہ یارسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ) آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اور خود اپنی قربانی ذبح کرکے اپنا احرام اتار دیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا یہ دیکھ کر کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے احرام کھول دیا ہے سب صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم مایوس ہو گئے کہ اب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے معاہدہ کو ہر گز ہر گز نہ بدلیں گے اس لئے سب صحابہ نے بھی اپنی اپنی قربانیاں کر کے احرام اتار دیااور سب لوگ مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔
حسن و جمال اور عقل و رائے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ان کی مہارت خصوصی طور پر ممتاز تھی۔ تین سو اٹھتر حدیثیں انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بہت سے صحابہ و تابعین حدیث میں ان کے شاگرد ہیں اور ان کے شاگردوں میں حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم بھی شامل ہیں۔ مدینہ منورہ میں چوراسی برس کی عمر پا کر وفات پائی اور ان کی وفات کا سال ۵۳ ھ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ ان کے وصال کا سال ۵۹ ھ ہے اور ابراہیم حربی نے فرمایا کہ ۶۲ ھ میں ان کا انتقال ہوا اور بعض کہتے ہیں کہ ۶۳ ھ کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۳۸ تا ۲۴۲ و اکمال و حاشيه اکمال ص ۵۹۹)
-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت اُمِ ّحبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا
ان کا اصلی نام “رملہ”ہے۔یہ سردار مکہ ابوسفیان بن حرب کی صاحبزادی ہیں اور ان کی والدہ کا نام صفیہ بنت ابو العاص ہے جو امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھوپھی ہیں۔
یہ پہلے عبید اﷲ بن جحش کے نکاح میں تھیں اور میاں بیوی دونوں نے اسلام قبول کیا اور دونوں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ لیکن حبشہ پہنچ کر ان کے شوہر عبیداﷲ بن جحش پر ایسی بدنصیبی سوار ہو گئی کہ وہ اسلام سے مرتد ہو کر نصرانی ہوگیا اور شراب پیتے پیتے نصرانیت ہی پر وہ مر گیا۔
ابن سعد نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے حبشہ میں ایک رات میں خواب دیکھا کہ ان کے شوہر عبید اﷲ بن جحش کی صورت اچانک بہت ہی بدنما اور بدشکل ہو گئی وہ اس خواب سے بہت زیادہ گھبرا گئیں۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے اچانک یہ دیکھا کہ ان کے شوہر عبیداﷲ بن جحش نے اسلام سے مرتد ہو کر نصرانی دین قبول کر لیا ،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے شوہر کو اپنا خواب سنا کر ڈرایا اور اسلام کی طرف بلایا مگر اس بدنصیب نے اس پر کان نہیں دھرا اور مرتد ہونے ہی کی حالت میں مر گیا مگر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے اسلام پر استقامت کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کی حالت معلوم ہوئی تو قلب نازک پر بے حد صدمہ گزرا اور آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نجاشی بادشاہِ حبشہ کے پاس بھیجا اور خط لکھا کہ تم میرے وکیل بن کر حضرت ام حبیبہ کے ساتھ میرا نکاح کر دو۔ نجاشی کو جب یہ فرمان نبوت پہنچا تو اس نے اپنی ایک خاص لونڈی کو جس کا نام “ابرہہ” تھا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس بھیجا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پیغام کی خبر دی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس خوشخبری کو سن کر اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنے کچھ زیورات اس بشارت کے انعام میں ابرہہ لونڈی کو انعام کے طور پر دے دیئے اور حضرت خالد بن سعید بن ابی العاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو جو ان کے ماموں کے لڑکے تھے اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی کے پاس بھیج دیا ۔نجاشی نے اپنے شاہی محل میں نکاح کی مجلس منعقد کی اور حضرت جعفر بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے اس مجلس میں بلایا اور خود ہی خطبہ پڑھ کر سب کے سامنے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا حضرت بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ نکاح کر دیا اور چار سو دینار اپنے پاس سے مہر ادا کیا جو اسی وقت حضرت خالد بن سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد کر دیا گیا۔ جب صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم اس نکاح کی مجلس سے اٹھنے لگے تو نجاشی بادشاہ نے کہا کہ آپ لوگ بیٹھے رہیے انبیاء علیہم السلام کا یہ طریقہ ہے کہ نکاح کے وقت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ یہ کہہ کر نجاشی نے کھانا منگایا اور تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم شکم سیر کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے پھر نجاشی نے حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مدینہ منورہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حرم نبوی میں داخل ہو کر ام المؤمنین کا معزز لقب پا لیا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بہت پاکیزہ ذات و حمیدہ صفات کی جامع اور نہایت ہی بلند ہمت اور سخی طبیعت کی مالک تھیں اور بہت ہی قوی الایمان تھیں۔ ان کے والد ابو سفیان جب کفر کی حالت میں تھے اور صلح حدیبیہ کی تجدید کے لئے مدینہ آئے تو بے تکلف ان کے مکان میں جا کر بستر نبوت پر بیٹھ گئے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے باپ کی ذرا بھی پر وا نہیں کی اور یہ کہہ کر اپنے باپ کو بستر سے اٹھا دیا کہ یہ بستر نبوت ہے۔ میں کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک ناپاک مشرک اس پاک بستر پر بیٹھے۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پینسٹھ حدیثیں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں موجود ہیں اور ایک حدیث وہ ہے جس کو تنہا مسلم نے روایت کیا ہے۔ باقی حدیثیں حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کے شاگردوںمیں ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ اور ان کی صاحبزادی حضرت حبیبہ اور ان کے بھانجے ابو سفیان بن سعید رضی اﷲ تعالٰی عنہم بہت مشہور ہیں۔
۴۴ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع میں ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے حظیرہ میں مدفون ہوئیں۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۴۲ تا ۲۴۵ و مدارج النبوۃ ج۲ ص ۴۸۱ تا ۴۸۲)
-: حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا
یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی ہیں ۔حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا تھا مگر چونکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا خاندانِ قریش کی ایک بہت ہی شاندار خاتون تھیں اور حسن و جمال میں بھی یہ خاندانِ قریش کی بے مثال عورت تھیں اور حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا مگر پھر بھی چونکہ وہ پہلے غلام تھے اس لئے حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا ان سے خوش نہیں تھیں اور اکثر میاں بیوی میں ان بن رہا کرتی تھی یہاں تک کہ حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس واقعہ سے فطری طور پر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے قلب نازک پر صدمہ گزرا۔ چنانچہ جب ان کی عدت گزر گئی تو محض حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی دلجوئی کے لئے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ روایت ہے کہ یہ پیغام بشارت سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دو رکعت نماز ادا کی اور سجدہ میں سر رکھ کر یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تیرے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے اگر میں تیرے نزدیک ان کی زوجیت میں داخل ہونے کے لائق عورت ہوں تو یااﷲ!عزوجل تو ان کے ساتھ میرا نکاح فرما دے ان کی یہ دعا فوراً ہی قبول ہو گئی اور یہ آیت نازل ہو گئی کہ
فَلَمَّا قَضٰی زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰـکَهَا
(احزاب)
جب زید نے اس سے حاجت پوری کر لی (زینب کو طلاق دے دی اور عدت گزر گئی) تو ہم نے اس (زینب) کا آپ کے ساتھ نکاح کر دیا۔
اس آیت کے نزول کے بعد حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کون ہے جو زینب کے پاس جائے اور اس کو یہ خوشخبری سنائے کہ اﷲ تعالٰی نے میرا نکاح اس کے ساتھ فرما دیا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک خادمہ دوڑتی ہوئی حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس پہنچیں اور یہ آیت سنا کر خوشخبری دی۔ حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا اس بشارت سے اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنا زیور اتار کر اس خادمہ کو انعام میں دے دیا اور خود سجدہ میں گر پڑیں اور اس نعمت کے شکریہ میں دو ماہ لگاتار روزہ دار رہیں۔
روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کے بعد ناگہاں حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان میں تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) بغیر خطبہ اور بغیر گواہ کے آپ نے میرے ساتھ نکاح فرما لیا؟ ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالٰی نے کر دیا ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان کے نکاح پر جتنی بڑی دعوت ولیمہ فرمائی اتنی بڑی دعوت ولیمہ ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن میں سے کسی کے نکاح کے موقع پر بھی نہیں فرمائی۔ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے ساتھ نکاح کی دعوت ولیمہ میں تمام صحابہ کرام کو نان و گوشت کھلایا۔
ان کے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم ازواجِ مطہرات میں سے میری وہ بیوی سب سے پہلے وفات پا کر مجھ سے آن ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ سن کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن نے ایک لکڑی سے اپنا ہاتھ ناپا تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا نکلا لیکن جب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن میں سے سب سے پہلے حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے وفات پائی تو اس وقت لوگوں کو پتا چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد کثرت سے صدقہ دیناتھا۔ کیونکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے ہاتھ سے کچھ دستکاری کا کام کرتی تھیں اور اس کی آمدنی فقراء و مساکین پر صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔
ان کی وفات کی خبر جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہائے ایک قابل تعریف عورت جو سب کے لئے نفع بخش تھی اور یتیموں اور بوڑھی عورتوں کا دل خوش کرنے والی تھی آج دنیا سے چلی گئی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بیان ہے کہ میں نے بھلائی اور سچائی میں اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کے معاملہ میں حضرت زینب سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں دیکھا۔
منقول ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھ کو خداوند تعالٰی نے ایک ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے جو ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ تمام ازواجِ مطہرات کا نکاح تو ان کے باپ داداؤں نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ کیا لیکن حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالٰی نے کر دیا۔
انہوں نے گیارہ حدیثیں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں۔ باقی نو حدیثیں دوسری کتب احادیث میں لکھی ہوئی ہیں۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کا حال امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دے دیا کہ مدینہ کے ہر کوچہ و بازار میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ تمام اہل مدینہ اپنی مقدس ماں کی نمازِ جنازہ کے لئے حاضر ہو جائیں۔ امیر المؤمنین رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ ۲۰ ھ یا ۲۱ ھ میں ۵۳ برس کی عمر پا کر مدینہ منورہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔
(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۷۶ تا ۴۷۸ وغيرہ)
-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
زمانہ جاہلیت میں چونکہ یہ غرباء اور مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لئے ان کا لقب “ام المساکین”(مسکینوں کی ماں) ہے پہلے ان کا نکاح حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا تھا مگر جب وہ جنگ احد میں شہید ہو گئے تو ۳ ھ میں حضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرما لیا اور یہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف دو مہینے یا تین مہینے زندہ رہیں اور ربیع الآخر ۴ ھ میں تیس برس کی عمر پاکر وفات پا گئیں اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن کے ساتھ دفن ہوئیں یہ ماں کی جانب سے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بہن ہیں۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۴۹)
-: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
ان کے والد کا نام حارث بن حزن ہے اور ان کی والدہ ہند بنت عوف ہیں ۔ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نام پہلے ” برہ ” تھا لیکن حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ” میمونہ ” (برکت دہندہ) رکھ دیا۔
یہ پہلے ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیں مگر جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۷ ھ میں عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو یہ بیوہ ہو چکی تھیں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے گفتگو کی اور آپ نے ان سے نکاح فرما لیا اور عمرۃ القضاء سے واپسی پر مقام ” سرف ” میں ان کو اپنی صحبت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی سگی بہنیں چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) ام الفضل لبابۃ الکبریٰ: یہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیوی ہیں اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ ان ہی کے شکم سے پیدا ہوئے۔
(۲) لبابۃ الصغریٰ: یہ حضرت خالد بن الولید سیف اﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ہیں۔
(۳) عصماء: یہ ابی بن خلف سے بیاہی گئی تھیں۔ انہوں نے اسلا م قبول کیا اور صحابیات میں ان کا شمار ہے۔
(۴) عِزّہ:یہ بھی صحابیہ ہیں جو زیاد بن مالک کے گھر میں تھیں۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ان سگی بہنوں کے علاوہ وہ بہنیں جو صرف ماں کی جانب سے ہیں وہ بھی چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) اسماء بنت عمیس: یہ پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر میں تھیں ان سے عبداﷲ وعون و محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہم تین فرزند پیدا ہوئے پھر جب حضرت جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ “جنگ موتہ” میں شہید ہو گئے تو ان سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئے پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے عقد فرما لیا اور ان سے بھی ایک فرزند پیدا ہوئے جن کا نام “یحییٰ” تھا۔
(۲) سلمیٰ بنت عمیس: یہ پہلے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں جن کا نام “ا مۃ اﷲ” تھا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد ان سے شداد بن الہاد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے عبداﷲ و عبدالرحمن رضی اﷲ تعالٰی عنہم دو فرزند پیدا ہوئے۔
(۳) سلامہ بنت عمیس: ان کا نکاح عبداﷲ بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا تھا۔
(۴) ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جو ام المساکین کے لقب سے مشہور ہیں جن کا ذکر خیر اوپرگزر چکا ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی والدہ “ہند بنت عوف” کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ دامادوں کے اعتبار سے روئے زمین پر کوئی بڑھیا ان سے زیادہ خوش نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ان کے دامادوں کی فہرست میں مندرجہ ذیل ہستیاں ہیں:
(۱) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (۲) حضرت ابوبکر (۳) حضرت علی(۴)حضرت حمزہ (۵) حضرت عباس (۶) حضرت شداد بن الہاد رضی اﷲ تعالٰی عنہم یہ سب کے سب بزرگوار “ہند بنت عوف” رضی اللہ تعالٰی عنہا کے داماد ہیں۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۵۱ و مدارج جلد۲ ص ۴۸۴)
حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کل چھہتر حدیثیں مروی ہیں جن میں سے سات حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں اور ایک حدیث صرف بخاری میں ہے اور ایک ایسی حدیث ہے جو صرف مسلم میں ہے اور باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔
یہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی آخری زو جہ مبارکہ ہیں ان کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ان کے انتقال کے سال میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہ ہے کہ انہوں نے ۵۱ ھ میں بمقام ” سرف ” وفات پائی جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے زفاف فرمایا تھا۔ ابن سعد نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ۶۱ ھ میں وفات پائی اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ ۳ ۶ ھ ان کے انتقال کا سال ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ان کی وفات کے وقت ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما موجود تھے اور انہوں ہی نے آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو قبر میں اتارا، محدث عطا ء کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے ساتھ حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے جنازہ میں شریک تھے۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے بہ آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ تم لوگ ان کے جنازہ کو بہت آہستہ آہستہ لے کر چلو اور ان کی مقدس لاش کو نہ جھنجھوڑو۔حضرت یزید بن اصم رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مقام سرف میں اسی چھپر کی جگہ میں دفن کیا جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو پہلی بار اپنی قربت سے سرفراز فرمایا تھا۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۳)
-: حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہیں “غزوہ مریسیع” میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے تھے ان ہی قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی تھیں۔ جب قیدیوں کو لونڈی غلام بنا کر مجاہدین پر تقسیم کر دیا گیا تو حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے ان سے مکاتبت کر لی یعنی یہ لکھ کر دے دیا کہ تم اتنی اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) میں اپنے قبیلے کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہو چکی ہوں۔ ثابت بن قیس نے مجھے مکاتبہ بنا دیا ہے مگر میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بدل کتابت ادا کر کے آزاد ہو جاؤں اس لئے آپ اس وقت میں میری مالی امداد فرمائیں کیونکہ میرا تمام خاندان اس جنگ میں گرفتار ہو چکا ہے اور ہمارے تمام مال و سامان مسلمانوں کے ہاتھوں میں مال غنیمت بن چکے ہیں اور میں اس وقت بالکل ہی مفلسی و بے کسی کے عالم میں ہوں۔ حضوررحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کی فریاد سن کر ان پر رحم آگیا، آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم اس کو منظور کر لو گی؟ انہوں نے پوچھا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) آپ میرے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے بدل کتابت کی تمام رقم میں خود تمہاری طرف سے ادا کر دوں اور پھر تم کو آزاد کرکے میں خود تم سے نکاح کر لوں تا کہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار برقرار رہ جائے۔ یہ سن کر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اس اعزاز کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بدل کتابت کی ساری رقم ادا فرما کر اور ان کو آزاد کر کے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن میں شامل فرما لیا اور یہ ام المؤمنین کے اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔
جب اسلامی لشکر میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح فرما لیا تو تمام مجاہدین ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نکاح فرما لیا اس خاندان کا کوئی فرد لونڈی غلام نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام مجاہدین اسلام کے قبضہ میں تھے فوراً ہی سب کے سب آزاد کر دیئے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا یہ فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ کے نکاح سے بڑھ کر مبارک نہیں ثابت ہوا کیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندان بنی مصطلق کو غلامی سے نجات حاصل ہو گئی۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے میرے قبیلے میں تشریف لانے سے تین رات پہلے میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر پڑا میں نے کسی سے اس خواب کا تذکرہ نہیں کیا لیکن جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہی اس خواب کی تعبیر ہے۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)
ان کا اصلی نام ” برہ ” (نیکو کار) تھا لیکن چونکہ اس نام سے بزرگی اور بڑائی کا اظہار ہوتا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ” جویریہ ” (چھوٹی لڑکی) رکھ دیا یہ بہت ہی عبادت گزار عورت تھیں نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ اپنے ورد و وظائف میں مشغول رہا کرتی تھیں۔
(مدارج جلد۲ ص۴۷۹)
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے دو بھائی عمرو بن الحارث اور عبداﷲ بن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث یہ تینوں بھی مسلمان ہوکرشرف صحابیت سے سربلند ہوئے۔
ان کے بھائی عبداﷲ بن حارث کے اسلام لانے کا واقعہ بہت ہی تعجب خیز بھی ہے اور دلچسپ بھی، یہ اپنی قوم کے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ چند اونٹنیاں اور لونڈی تھی۔ انہوں نے ان سب کو ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا دیا اور تنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیدیوں کے فدیہ کے لئے کیا لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری وہ اونٹنیاں کیا ہوئیں؟ اور تمہاری وہ لونڈی کدھر گئی؟ جسے تم فلاں گھاٹی میں چھپا کر آئے ہو۔ زبان رسالت سے یہ علم غیب کی خبر سن کر عبداﷲ بن حارث حیران رہ گئے کہ آخر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو میری لونڈی اور اونٹنیوں کی خبر کس طرح ہو گئی ایک دم ان کے اندھیرے دل میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت کا نور چمک اٹھا اور وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
(کتاب الاستيعاب)
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے سات حدیثیں بھی رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری شریف میں اور دو حدیثیں مسلم شریف میں ہیں باقی تین حدیثیں دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے حضرت طفیل رضی اﷲ تعالٰی عنہم وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔
( مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۱ و زرقانی جلد۳ ص۲۵۵ )
۵۰ ھ میں پینسٹھ برس کی عمر پا کر انہوں نے مدینہ طیبہ میں وفات پائی اور حاکم مدینہ مروان نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۵ و مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۱)
-: حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

-: حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا
ان کا اصلی نام زینب تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کا نام “صفیہ” رکھ دیا۔ یہ یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں اور ان کی ماں کا نام ضرہ بنت سموئل ہے۔ یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس اعظم تھا جو جنگ خیبر میں قتل ہو گیا۔
محرم ۷ ھ میں جب خیبرکومسلمانوں نے فتح کر لیااورتمام اسیران جنگ گرفتار کر کے اکٹھا جمع کئے گئے تو اس وقت حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایک لونڈی طلب کی، آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پسند سے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو لے لیا مگر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) حضرت صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شاہ زادی ہیں۔ ان کے خاندانی اعزاز کا تقاضا ہے کہ آپ ان کو اپنی ازواجِ مطہرات میں شامل فرما لیں۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے لے لیا اور ان کے بدلے میں انہیں ایک دوسری لونڈی عطا فرما دی پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا اور جنگ خیبر سے واپسی میں تین دنوں تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ کے اندر اپنی قربت سے سرفراز فرمایا اور دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو کھلایا جس کا مفصل تذکرہ جنگ خیبر میں گزر چکا۔
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رو رہی ہیں آپ نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں دربار رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں کیونکہ ہمارا خاندان حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صفیہ! تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیو نکر ہو سکتی ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام میرے باپ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا ہیں اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرے شوہر ہیں۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹)
انہوں نے دس حدیثیں بھی حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے ایک حدیث بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہے اور باقی نو حدیثیں دوسری کتابوں میں درج ہیں۔
ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے و اقدی کا قول ہے کہ ۵۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔ اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ ۵۲ ھ میں ان کا انتقال ہوا ۔ بوقت رحلت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی یہ بھی مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
(زرقانی جلد۳ ص ۲۵۹ و مدارج جلد۲ ص ۴۸۳)
یہ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی وہ گیارہ ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالٰی عنہن ہیں جن پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ان میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا تو ہجرت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جن کا لقب “ام المساکین ” ہے۔ ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ نکاح کے دو تین ماہ بعد حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے ہی یہ وفات پا گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رحلت کے وقت آپ کی نو بیویاں موجود تھیں جن میں سے آٹھ کی آپ باریاں مقرر فرماتے رہے کیونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ ان نو مقدس ازواج میں سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رحلت کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وفات پائی اور سب کے بعد آخر میں ۶۲ ھ یا ۶۳ ھ میں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے رحلت فرمائی ان کی وفات کے بعد دنیا امہات المؤمنین سے خالی ہو گئی۔