بچپن کے واقعات

-: ولادت با سعادت

-: مولد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم

-: دودھ پینے کا زمانہ

-: شق صدر

-: شق صدر کتنی بار ہوا ؟

-: ام ایمن

-: بچپن کی ادائیں

-: حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی وفات

-: ابو طالب کے پاس

-: آپ کی دُعا سے بارش

-: اُمّی لقب

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا لقب ’’اُمّی‘‘ ہے اس لفظ کے دو معنی ہیں یا تو یہ ’’اُم القریٰ‘‘ کی طرف نسبت ہے۔ ’’اُم القریٰ‘‘ مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا ’’اُمی‘‘ کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا’’اُمّی‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ (ہر ہر چیز کا روشن بیان) ہے حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت

بغمزہ سبق آموز صد مدرس شد

یعنی میرے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نہ کبھی مکتب میں گئے ، نہ لکھنا سیکھامگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سیکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھادیا۔

ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ؎

ایسا امی کس لئے منت کش استاذ ہو

کیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے امی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خدا وندعلام الغیوب کے سوا اور کون بتا سکتا ہے؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں ۔

اوّل۔ یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ہوں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے

دوم۔ یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے زیادہ علم والا ہو گا۔

سوم۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔

چہارم۔جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ساری دنیاکو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔

پنجم۔ اگرحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی، حالانکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو خالق کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تعظیم کرے، اس لیے حضرت حق جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استادہو۔

(واللہ تَعَالٰی اعلم)

-: سفر شام اور بحیرٰی