مدینہ میں آفتاب رِسالت

-: مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

-: بیعت عقبہ اولیٰ

-: بیعت عقبہ ثانیہ

-: ہجرت مدینہ

-: کفار کانفرنس

-: ہجرتِ رسول کا واقعہ

-: کاشانۂ نبوت کا محاصرہ

-: سو اونٹ کا انعام

-: اُمِ معبد کی بکری

-: سراقہ کا گھوڑا

-: بریدہ اسلمی کا جھنڈا

-: حضرت زبیر کے بیش قیمت کپڑے

-: شہنشاہ رسالت مدینہ میں

حضورِاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تشریف آوری کا چرچا تھا ۔اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اورجب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔ ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہل مدینہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے کہ ناگہاں ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سواری مدینہ کے قریب آن پہنچی ہے۔ اس نے بہ آواز بلند پکارا کہ اے مدینہ والو!لو تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کراور وجد و شادمانی سے بے قرار ہو کر دونوں عالم کے تاجدارصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے تمام شہر گونج اُٹھا۔ 1

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۶۳ وغیرہ)

مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج ’’مسجدقبا‘‘ بنی ہوئی ہے۔ ۱۲ربیع الاول کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اہل خاندان نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے اﷲ اکبر کا پرجوش نعرہ مارا۔ چاروں طرف سے انصار جوشِ مسرت میں آتے اور بارگاہ رسالت میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے۔ اکثر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی حکم نبوی کے مطابق قریش کی امانتیں واپس لوٹا کر تیسرے دن مکہ سے چل پڑے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا اور حضرتِ کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے خاندان والے ان تمام مقدس مہمانوں کی مہمان نوازی میں دن رات مصروف رہنے لگے ۔ 2

(مدارج النبوۃ ج ۲ ص۶۳ و بخاری ج۱ ص۵۶۰)

اﷲ اکبر! عمروبن عوف کے خاندان میں حضرت سید الانبیاءصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم و سید الاولیاء اور صالحین صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا کہ غالباً چاند، سورج اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر زبانِ حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مکان؟ اور شاید خاندان عمرو بن عوف کا بچہ بچہ جوشِ مسرت سے مسکرا مسکرا کر زبانِ حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ ؎

اُن کے قدم پہ میں نثارجن کے قدوم ناز نے

اُجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنا دیا

اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ