مدینہ میں آفتاب رِسالت

-: مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

-: بیعت عقبہ اولیٰ

-: بیعت عقبہ ثانیہ

-: ہجرت مدینہ

-: کفار کانفرنس

-: ہجرتِ رسول کا واقعہ

-: کاشانۂ نبوت کا محاصرہ

کفار مکہ نے اپنے پروگرام کے مطابق کاشانۂ نبوت کو گھیر لیااور انتظار کرنے لگے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سو جائیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ اس وقت گھر میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس صرف علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ تھے۔ کفار مکہ اگرچہ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس امانت رکھتے تھے۔چنانچہ اس وقت بھی بہت سی امانتیں کاشانۂ نبوت میں تھیں ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ تم میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو اور میرے چلے جانے کے بعد تم قریش کی تمام امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر مدینہ چلے آنا۔

یہ بڑا ہی خوفناک اور بڑے سخت خطرہ کا موقع تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو معلوم تھا کہ کفار ِمکہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں مگر حضورِاقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اس فرمان سے کہ تم قریش کی ساری امانتیں لوٹا کر مدینہ چلے آنا حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو یقین کامل تھا کہ میں زندہ رہوں گا اور مدینہ پہنچوں گا اس لئے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بستر جو آج کانٹوں کا بچھونا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا اور آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ َ بستر پر صبح تک آرام کے ساتھ میٹھی میٹھی نیند سوتے رہے۔ اپنے اسی کارنامے پر فخر کرتے ہوئے شیر خدا نے اپنے اشعار میں فرمایا کہ

وَقَیْتُ بِنَفْسِیْ خَیْرَمَنْ وَطِیَٔ الثَّریٰ

وَمَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ وَبِالْحَجَرِ

میں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس ذات گرامی کی حفاظت کی جو زمین پر چلنے والوں اور خانہ کعبہ و حطیم کا طواف کرنے والوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بلند مرتبہ ہیں ۔

رَسُوْلُ اِلٰہٍ خَافَ اَنْ یَّمْکُرُوْابِہٖ

فَنَجَّاہُ ذُوالطَّوْلِ الْاِلٰہُ مِنَ الْمَکْرِ

رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کفار مکہ ان کے ساتھ خفیہ چال چل جائیں گے مگر خداوند مہربان نے ان کو کافروں کی خفیہ تدبیر سے بچا لیا۔ 1

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۲۲)

حضورِاقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بستر نبوت پر جان ولایت کو سلا کر ایک مٹھی خاک ہاتھ میں لی اور سورۂ یس ٓ کی ابتدائی آیتوں کو تلاوت فرماتے ہوئے نبوت خانہ سے باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے کافروں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے مجمع سے صاف نکل گئے۔نہ کسی کو نظر آئے نہ کسی کو کچھ خبر ہوئی۔ ایک دوسرا شخص جو اس مجمع میں موجود نہ تھااس نے ان لوگوں کو خبر دی کہ محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) تو یہاں سے نکل گئے اور چلتے وقت تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں ۔ چنانچہ ان کور بختوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو واقعی ان کے سروں پر خاک اور دھول پڑی ہوئی تھی۔ 2

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۵۷)

رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام ’’حزورہ‘‘ کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ ’’کعبہ‘‘ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہو چکی تھی۔ وہ بھی اسی جگہ آ گئے اور اس خیال سے کہ کفار مکہ ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیااور اس طرح خاردار جھاڑیوں اور نوک دار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات ’’غارِ ثور‘‘ پہنچے ۔ 3

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۵۸)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی گودمیں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یارغار کے پاؤں میں کاٹا مگر حضرت صدیق جاں نثار رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمت ِعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے خوابِ راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یارغار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پرنثار ہو گئے۔ جس سے رحمت ِعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بیدار ہو گئے اور اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابوبکر! کیا ہوا؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیاجس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا۔ حضورِاقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تین رات اس غار میں رونق افروز رہے۔ 4

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے جوان فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں ؟ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے عرض کردیتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کچھ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور ان بکریوں کا دودھ دونوں عالم کے تاجدارصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور ان کے یار غار پی لیتے تھے۔ 5

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۳۹)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تو غار ثور میں تشریف فرما ہو گئے۔ اُدھر کاشانۂ نبوت کا محاصرہ کرنے والے کفار جب صبح کو مکان میں داخل ہوئے تو بستر نبوت پر حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ تھے۔ ظالموں نے تھوڑی دیر آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے پوچھ گچھ کرکے آپ کو چھوڑ دیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تلاش و جستجو میں مکہ اور اطراف و جوانب کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر اس وقت خداوندی حفاظت کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار قریش آپس میں کہنے لگے کہ اس غارمیں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کچھ گھبرائے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آ گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا

مت گھبراؤ !خدا ہمارے ساتھ ہے۔

اس کے بعد اﷲ تعالٰی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قلب پر سکون و اطمینان کا ایسا سکینہ اُتار دیا کہ وہ بالکل ہی بے خوف ہو گئے 6 ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی یہی وہ جاں نثاریاں ہیں جن کو دربار نبوت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎

وَثَانِیُ اثْنَیْنِ فِی الْغَارِ الْمُنِیْفِ وَقَدْ

طَافَ الْعَدُوُّ بِہٖ اِذْ صَاعَدَ الْجَبَلَا

اور دومیں کے دوسرے (ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ )جب کہ پہاڑ پر چڑھ کر بلند مرتبہ غار میں اس حال میں تھے کہ دشمن ان کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا۔

وَکَانَ حِبَّ رَسُوْلِ اﷲ ِقَدْ عَلِمُوْا

مِنَ الْخَلَائِقِ لَمْ یَعْدِلْ بِہٖ بَدَلَا

اور وہ (ابوبکررضی اﷲ تعالٰی عنہ )رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے محبوب تھے۔ تمام مخلوق اس بات کو جانتی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کسی کو بھی ان کے برابر نہیں ٹھہرایا ہے۔ 7

(زرقانی علی المواہب ج ۱ص ۳۳۷)

بہر حال چوتھے دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم یکم ربیع الاول دوشنبہ کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبداﷲ بن اریقط جس کو رہنمائی کے لئے کرایہ پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے نوکر رکھ لیا تھا وہ قرارداد کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک اونٹنی پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بیٹھے اور عبداﷲ بن اُریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔ 8


-: سو اونٹ کا انعام

-: اُمِ معبد کی بکری

-: سراقہ کا گھوڑا

-: بریدہ اسلمی کا جھنڈا

-: حضرت زبیر کے بیش قیمت کپڑے

-: شہنشاہ رسالت مدینہ میں