مدینہ میں آفتاب رِسالت

-: مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

-: بیعت عقبہ اولیٰ

-: بیعت عقبہ ثانیہ

اس کے ایک سال بعد سن ۱۳ نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے تقریباً بہتّر اشخاص نے منیٰ کی اسی گھاٹی میں اپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ عہد کیا کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی اور اسلام کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔ اس موقع پر حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی موجود تھے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے مدینہ والوں سے کہا کہ دیکھو! محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنے خاندان بنی ہاشم میں ہر طرح محترم اور با عزت ہیں ۔ ہم لوگوں نے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے۔ اب تم لوگ ان کو اپنے وطن میں لے جانے کے خواہشمند ہو تو سن لو! اگر مرتے دم تک تم لوگ ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ہے ورنہ ابھی سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ یہ سن کر حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ طیش میں آ کر کہنے لگے کہ ’’ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں ۔‘‘ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ حضرت ابو الہیثم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بات کاٹتے ہوئے یہ کہا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ہم لوگوں کے یہودیوں سے پرانے تعلقات ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مسلمان ہو جانے کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اﷲ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہم لوگوں کو چھوڑ کر اپنے وطن مکہ چلے جائیں ۔ یہ سنکر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ تم لوگ اطمینان رکھو کہ ’’تمہارا خون میرا خون ہے‘‘ اور یقین کرو’’ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔ تمہارا دشمن میرا دشمن اور تمہارا دوست میرا دوست ہے۔‘‘ 1

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۱۷ وسیرت ابن ہشام ج۴ ص۴۴۱ تا۴۴۲)

جب انصار یہ بیعت کر رہے تھے تو حضرت سعد بن زرارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یا حضرت عباس بن نضلہ نے کہا کہ میرے بھائیو! تمہیں یہ بھی خبر ہے؟ کہ تم لوگ کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ خوب سمجھ لو کہ یہ عرب و عجم کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ انصار نے طیش میں آ کر نہایت ہی پرجوش لہجے میں کہا کہ ہاں ! ہاں !ہم لوگ اسی پر بیعت کررہے ہیں ۔بیعت ہو جانے کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس جماعت میں سے بارہ آدمیوں کو نقیب(سردار)مقرر فرمایا ۔ان میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے اور تین اشخاص قبیلۂ اوس کے تھے جن کے مبارک نام یہ ہیں ۔

(۱)حضرت ابوامامہ اسعدبن زرارہ(۲)حضرت سعدبن ربیع(۳)حضرت عبداﷲ بن رواحہ(۴) حضرت رافع بن مالک (۵) حضرت براء بن معرور (۶) حضرت عبداﷲ بن عمرو (۷)حضرت سعد بن عبادہ(۸)حضرت منذر بن عمر (۹)حضرت عبادہ بن ثابت ۔یہ نو آدمی قبیلہ خزرج کے ہیں ۔ (۱۰)حضرت اُسید بن حضیر (۱۱)حضرت سعد بن خیثمہ(۱۲)حضرت ابو الہیثم بن تیہان۔ یہ تین شخص قبیلۂ اوس کے ہیں ۔ 2 (رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین)

(زرقانی علی المواہب ج۱ص۳۱۷)

اس کے بعد یہ تمام حضرات اپنے اپنے ڈیروں پر چلے گئے۔ صبح کے وقت جب قریش کو اس کی اطلاع پہنچی تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور ان لوگوں نے ڈانٹ کر مدینہ والوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے ساتھ جنگ کرنے پر محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) سے بیعت کی ہے؟ انصار کے کچھ ساتھیوں نے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنی لاعلمی ظاہر کی ۔یہ سن کر قریش واپس چلے گئے مگر جب تفتیش و تحقیقات کے بعد کچھ انصار کی بیعت کا حال معلوم ہوا تو قریش غیظ و غضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور بیعت کرنے والوں کی گرفتاری کے لئے تعاقب کیا مگر قریش حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سوا کسی اور کو نہیں پکڑ سکے۔ قریش حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنے ساتھ مکہ لائے اور ان کو قید کر دیا مگر جب جبیر بن مطعم اور حارث بن حرب بن امیہ کو پتہ چلا تو ان دونوں نے قریش کو سمجھایا کہ خدا کے لئے سعد بن عبادہ(رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ)کو فوراً چھوڑ دو ورنہ تمہاری ملک ِشام کی تجارت خطرہ میں پڑجائے گی۔ یہ سن کر قریش نے حضرت سعد بن عبادہ کو قید سے رہاکردیااور وہ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔ 3

(سیرت ِابن ہشام ج۴ص ۴۴۹ تا ۴۵۰)


-: ہجرت مدینہ

-: کفار کانفرنس

-: ہجرتِ رسول کا واقعہ

-: کاشانۂ نبوت کا محاصرہ

-: سو اونٹ کا انعام

-: اُمِ معبد کی بکری

-: سراقہ کا گھوڑا

-: بریدہ اسلمی کا جھنڈا

-: حضرت زبیر کے بیش قیمت کپڑے

-: شہنشاہ رسالت مدینہ میں