مدینہ میں آفتاب رِسالت

-: مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

-: بیعت عقبہ اولیٰ

-: بیعت عقبہ ثانیہ

-: ہجرت مدینہ

-: کفار کانفرنس

-: ہجرتِ رسول کا واقعہ

-: کاشانۂ نبوت کا محاصرہ

-: سو اونٹ کا انعام

-: اُمِ معبد کی بکری

-: سراقہ کا گھوڑا

جب اُمِ معبد کے گھر سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم آگے روانہ ہوئے تو مکہ کا ایک مشہور شہسوار سراقہ بن مالک بن جعشم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیا۔ قریب پہنچ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا مگر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا مگر سو اونٹوں کا انعام کوئی معمولی چیز نہ تھی۔ انعام کے لالچ نے اسے دوبارہ اُبھارا اور وہ حملہ کی نیت سے آگے بڑھا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی دعا سے پتھریلی زمین میں اس کے گھوڑے کا پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ یہ معجزہ دیکھ کر خوف و دہشت سے کانپنے لگا اور امان ! امان! پکارنے لگا۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا دل رحم و کرم کا سمندر تھا۔ سراقہ کی لاچاری اور گریہ زاری پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا دریائے رحمت جوش میں آ گیا۔ دعا فرما دی تو زمین نے اس کے گھوڑے کو چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد سراقہ نے عرض کیا کہ مجھ کو امن کا پروانہ لکھ دیجیے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے حکم سے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سراقہ کے لئے امن کی تحریر لکھ دی۔ سراقہ نے اس تحریر کو اپنے ترکش میں رکھ لیااور واپس لوٹ گیا۔ راستہ میں جو شخص بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بارے میں دریافت کرتا تو سراقہ اس کو یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ میں نے بڑی دور تک بہت زیادہ تلاش کیا مگر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اس طرف نہیں ہیں ۔ واپس لوٹتے ہوئے سراقہ نے کچھ سامان سفر بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی خدمت میں بطور نذرانہ کے پیش کیا مگر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے قبول نہیں فرمایا۔ 1

(بخاری باب ہجرۃ النبی ج۱ ص۵۵۴ و زرقانی ج۱ ص۳۴۶ و مدارج النبوۃ ج۲ ص۶۲)

سراقہ اس وقت تو مسلمان نہیں ہوئے مگر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی عظمت نبوت اور اسلام کی صداقت کا سکہ ان کے دل پر بیٹھ گیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فتح مکہ اور جنگ طائف و حنین سے فارغ ہو کر ’’جعرانہ‘‘ میں پڑاؤ کیا تو سراقہ اسی پروانۂ امن کو لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو گئے اور اپنے قبیلہ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ 2

(دلائل النبوۃ ج۲ ص۱۵ و مدارج النبوۃ ج۲ ص۶۲)

واضح رہے کہ یہ وہی سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے علم غیب سے غیب کی خبر دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اے سراقہ!تیرا کیا حال ہو گا جب تجھ کو ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے دونوں کنگن پہنائے جائیں گے؟ اس ارشاد کے برسوں بعد جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کے کنگن دربار خلافت میں لائے گئے تو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے فرمان کی تصدیق و تحقیق کے لئے وہ کنگن حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پہنا دیئے اور فرمایا کہ اے سراقہ!رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ کہو کہ اﷲ تعالٰی ہی کے لئے حمد ہے جس نے ان کنگنوں کو بادشاہ فارس کسریٰ سے چھین کر سراقہ بدوی کو پہنا دیا۔ 3 حضرت سراقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ۲۴ھ میں وفات پائی۔جب کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تخت خلافت پر رونق افروز تھے۔

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۴۶ و ص۳۴۸)


-: بریدہ اسلمی کا جھنڈا

-: حضرت زبیر کے بیش قیمت کپڑے

-: شہنشاہ رسالت مدینہ میں