ہجرت کا آٹھواں سال

-: جنگ موتہ

-: اس جنگ کا سبب

اس جنگ کا سبب یہ ہوا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ’’بصریٰ‘‘ کے بادشاہ یا قیصر روم کے نام ایک خط لکھ کر حضرت حارث بن عمیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ذریعہ روانہ فرمایا۔ راستہ میں ’’بلقاء‘‘ کے بادشاہ شرحبیل بن عمروغسانی نے جوقیصر روم کا باج گزار تھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس قاصد کو نہایت بے دردی کے ساتھ رسی میں باندھ کر قتل کردیا۔ جب بارگاہ رسالت میں اس حادثہ کی اطلاع پہنچی تو قلب مبارک پر انتہائی رنج و صدمہ پہنچا۔اس وقت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار فرمایا اور اپنے دست ِمبارک سے سفید رنگ کا جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں دیا اور ان کو اس فوج کا سپہ سالار بنایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید بن حارثہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر سپہ سالار ہوں گے اور جب وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوجائیں تو اس جھنڈے کے علمبردار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہوں گے(رضی اللہ تعالٰی عنہم) ان کے بعد لشکراسلام جس کو منتخب کرے وہ سپہ سالار ہوگا۔1

اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقام ’’ثنیۃ الوداع‘‘ تک تشریف لے گئے اور لشکر کے سپہ سالار کو حکم فرمایا کہ تم ہمارے قاصد حضرت حارث بن عمیر(رضی اﷲ تعالٰی عنہ) کی شہادت گاہ میں جاؤ جہاں اس جاں نثار نے ادائے فرض میں اپنی جان دی ہے۔ پہلے وہاں کے کفار کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ورنہ تم اللہ عزوجل کی مددطلب کرتے ہوئے ان سے جہاد کرو۔ جب لشکر چل پڑا تو مسلمانوں نے بلند آواز سے یہ دعا دی کہ خدا سلامت اور کامیاب واپس لائے۔

جب یہ فوج مدینہ سے کچھ دور آگے نکل گئی تو خبر ملی کہ خود قیصرروم مشرکین کی ایک لاکھ فوج لے کر بلقاء کی سرزمین میں خیمہ زن ہوگیا ہے۔ یہ خبر پاکر امیرلشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دے دیا اور ارادہ کیا کہ بارگاہ رسالت میں اس کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے۔ مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہمارا مطلوب تو شہادت ہے۔ کیونکہ ؎ نے فرمایا کہ ہمارا مقصد فتح یامال غنیمت نہیں ہے بلکہ ؎

شہادت ہے مقصودو مطلوبِ مومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی

اور یہ مقصد بلند ہر وقت اور ہر حالت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی یہ تقریر سن کر ہر مجاہد جوش جہاد میں بے خود ہوگیا۔ اور سب کی زبان پر یہی ترانہ تھا کہ؎

بڑھتے چلو مجاہدو بڑھتے چلو مجاہدو

غرض یہ مجاہدین اسلام موتہ کی سرزمین میں داخل ہوگئے اور وہاں پہنچ کر دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا لشکر ریشمی زرق برق وردیاں پہنے ہوئے بے پناہ تیاریوں کے ساتھ جنگ کے لئے کھڑا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لشکر کا بھلا تین ہزار سے مقابلہ ہی کیا؟ مگر مسلمان خداعزوجل کے بھروسا پر مقابلہ کے لئے ڈٹ گئے۔2


1المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۴۰،۳۴۲ 2المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۴۲۔۳۴۴

-: معرکہ آرائی کا منظر

-: نگاہِ نبوت کا معجزہ

-: سریۃ الخبط

-: ایک عجیب الخلقت مچھلی

-: فتح مکہ (رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ ء)

-: کفار قریش کی عہد شکنی

-: تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی امن پسندی

-: ابو سفیان کی کوشش

-: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خط

-: مکہ پر حملہ

-: حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے ملاقات

-: میلوں تک آگ ہی آگ

-: قریش کے جاسوس

-: ابو سفیان کا اسلام

-: لشکر اسلام کا جاہ و جلال

-: فاتح مکہ کا پہلا فرمان

-: مکہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قیام گاہ

-: بیت اللہ میں داخلہ

-: شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دربارِ عام

-: کفارِ مکہ سے خطاب

-: دوسرا خطبہ

-: انصار کو فراق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ڈر

-: کعبہ کی چھت پر اذان

-: بیعت ِ اسلام

-: بت پرستی کا خاتمہ

-: چند ناقابل معافی مجرمین

-: مکہ سے فرار ہوجانے والے

-: مکہ کا انتظام

-: جنگ ِ حنین

-: جنگ اوطاس

-: طائف کا محاصرہ

-: طائف کی مسجد

-: جنگ طائف میں بت شکنی

-: مالِ غنیمت کی تقسیم

-: انصاریوں سے خطاب

-: قیدیوں کی رہائی

-: غیب داں رسول صلی اﷲ تعالٰی علہ وسلم

-: عمرۂ جِعرانہ

۸ ھ کے متفرق واقعات :-

-: توبہ کی فضیلت