ہجرت کا آٹھواں سال

-: جنگ موتہ

-: اس جنگ کا سبب

-: معرکہ آرائی کا منظر

-: نگاہِ نبوت کا معجزہ

-: سریۃ الخبط

-: ایک عجیب الخلقت مچھلی

-: فتح مکہ (رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ ء)

-: کفار قریش کی عہد شکنی

-: تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی امن پسندی

-: ابو سفیان کی کوشش

اس کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ابوسفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت اُم المؤمنین بی بی ام حبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے مکان پر پہنچااور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرتِ بی بی اُمِ حبیبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے جلدی سے بستر اٹھا لیا ابوسفیان نے حیران ہوکر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھالیا؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا؟ اُم المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو۔ اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابوسفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہوکر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابوسفیان حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر وحضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس جب ابوسفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہم بھی تھے۔ ابوسفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی!تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یوں ہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اے ابوسفیان!ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کرسکیں ۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ابوسفیان نے حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے کہا کہ اے فاطمہ!یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ(امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرا دی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل؟ بالآخر ابوسفیان نے کہا کہ اے علی!معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ؟ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کردو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی ابوسفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہوسکتا ہے؟ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یک طرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارۂ کار ہی کیا ہے؟ ابوسفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی مگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

ابوسفیان یہ اعلان کرکے مکہ روانہ ہوگیا جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا؟ ابوسفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کیا تو کیا محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نے اس کو قبول کرلیا؟ ابوسفیان نے کہا کہ ’’نہیں ‘‘ یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔1

(زرقانی ج۲ ص ۲۹۲تا ص ۲۹۳)

اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا۔ مگر کسی کو حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے؟ یہاں تک ک ہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا ہے؟ عرض کیا: ’’جی ہاں ‘‘ پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہانے کہا کہ ’’واللہ ! مجھے یہ معلوم نہیں ۔‘‘2

(زرقانی ج۲ ص ۲۹۱)

غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کردیا جائے۔


1المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۵۔۳۸۶ 2المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۱، ۳۸۲

-: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خط

-: مکہ پر حملہ

-: حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے ملاقات

-: میلوں تک آگ ہی آگ

-: قریش کے جاسوس

-: ابو سفیان کا اسلام

-: لشکر اسلام کا جاہ و جلال

-: فاتح مکہ کا پہلا فرمان

-: مکہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قیام گاہ

-: بیت اللہ میں داخلہ

-: شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دربارِ عام

-: کفارِ مکہ سے خطاب

-: دوسرا خطبہ

-: انصار کو فراق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ڈر

-: کعبہ کی چھت پر اذان

-: بیعت ِ اسلام

-: بت پرستی کا خاتمہ

-: چند ناقابل معافی مجرمین

-: مکہ سے فرار ہوجانے والے

-: مکہ کا انتظام

-: جنگ ِ حنین

-: جنگ اوطاس

-: طائف کا محاصرہ

-: طائف کی مسجد

-: جنگ طائف میں بت شکنی

-: مالِ غنیمت کی تقسیم

-: انصاریوں سے خطاب

-: قیدیوں کی رہائی

-: غیب داں رسول صلی اﷲ تعالٰی علہ وسلم

-: عمرۂ جِعرانہ

۸ ھ کے متفرق واقعات :-

-: توبہ کی فضیلت