ہجرت کا آٹھواں سال

-: جنگ موتہ

-: اس جنگ کا سبب

-: معرکہ آرائی کا منظر

-: نگاہِ نبوت کا معجزہ

-: سریۃ الخبط

-: ایک عجیب الخلقت مچھلی

-: فتح مکہ (رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ ء)

-: کفار قریش کی عہد شکنی

-: تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی امن پسندی

-: ابو سفیان کی کوشش

-: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خط

-: مکہ پر حملہ

-: حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے ملاقات

-: میلوں تک آگ ہی آگ

-: قریش کے جاسوس

-: ابو سفیان کا اسلام

-: لشکر اسلام کا جاہ و جلال

-: فاتح مکہ کا پہلا فرمان

-: مکہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قیام گاہ

-: بیت اللہ میں داخلہ

-: شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دربارِ عام

-: کفارِ مکہ سے خطاب

-: دوسرا خطبہ

-: انصار کو فراق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ڈر

-: کعبہ کی چھت پر اذان

-: بیعت ِ اسلام

-: بت پرستی کا خاتمہ

-: چند ناقابل معافی مجرمین

-: مکہ سے فرار ہوجانے والے

-: مکہ کا انتظام

-: جنگ ِ حنین

-: جنگ اوطاس

چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ماتحتی میں تھوڑی سی فوج ’’اوطاس‘‘ کی طرف بھیج دی۔ درید بن الصمہ کئی ہزار کی فوج لے کر نکلا۔ درید بن الصمہ کے بیٹے نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے زانو پر ایک تیر مارا حضرت ابو عامر اشعری حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے چچا تھے۔ اپنے چچا کو زخمی دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ دوڑ کر اپنے چچا کے پاس آئے اور پوچھا کہ چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ تو حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اشارہ سے بتایا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ جوش میں بھرے ہوئے اس کافر کو قتل کرنے کے لئے دوڑے تو وہ بھاگ نکلا۔ مگر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس کا پیچھا کیا اور یہ کہہ کر کہ اے او بھاگنے والے! کیا تجھ کو شرم اور غیرت نہیں آتی؟ جب اس کافر نے یہ گرم گرم طعنہ سنا تو ٹھہر گیا پھر دونوں میں تلوار کے دو دو ہاتھ ہوئے اور حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آخر اس کو قتل کرکے دم لیا۔ پھر اپنے چچا کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی کہ چچا جان! خدا نے آپ کے قاتل کاکام تمام کر دیا۔ پھر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے چچا کے زانو سے وہ تیر کھینچ کر نکالا تو چونکہ زہر میں بجھایا ہوا تھا اس لئے زخم سے بجائے خون کے پانی بہنے لگا۔ حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنی جگہ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو فوج کا سپہ سالار بنایا اور یہ وصیت کی کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اورمیرے لئے دعا کی درخواست کرنا ۔یہ وصیت کی اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ جب اس جنگ سے فارغ ہو کر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اپنے چچا کا سلام اور پیغام پہنچایا تو اس وقت تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک بان کی چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی پشت مبارک اور پہلوئے اقدس میں بان کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے پانی منگا کر وضو فرمایا ۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ لی اور اس طرح آپ نے دعا مانگی کہ ’’یااﷲ! عزوجل تو ابو عامررضی اﷲ تعالٰی عنہ کو قیامت کے دن بہت سے انسانوں سے زیادہ بلند مرتبہ بنا دے۔‘‘ یہ کرم دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) میرے لئے بھی دعا فرما دیجئے؟ تو یہ دعا فرمائی کہ ’’یااﷲ!عزوجل توعبداﷲ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور اس کو قیامت کے دن عزت والی جگہ میں داخل فرما۔‘‘ عبداﷲ بن قیس حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا نام ہے۔1

(بخاری ج۲ ص۶۱۹ غزوۂ اوطاس)

بہر کیف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے درید بن الصمہ کے بیٹے کو قتل کر دیا اور اسلامی علم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ درید بن الصمہ بڑھاپے کی وجہ سے ایک ہودج پر سوار تھا۔ اس کو حضرت ربیعہ بن رفیع رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خود اسی کی تلوار سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کفار کی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیا اور سب گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت ’’شیماء‘‘ رضی اﷲ تعالٰی عنہابھی تھیں ۔ یہ حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاکی صاحبزادی تھیں ۔ جب لوگوں نے ان کو گرفتار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں ۔ مسلمان ان کو شناخت کے لئے بارگاہ نبوت میں لائے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور کچھ اونٹ کچھ بکریاں ان کو دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں ۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچا دی گئیں ۔2

(طبری ج۳ ص۶۶۸)


1المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃاوطاس، ج۳، ص۵۳۲۔۵۳۶ملخصاً وصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ اوطاس، الحدیث۴۳۲۳، ج۳، ص۱۱۳ 2المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ اوطاس ، ج۳، ص۵۳۳

-: طائف کا محاصرہ

-: طائف کی مسجد

-: جنگ طائف میں بت شکنی

-: مالِ غنیمت کی تقسیم

-: انصاریوں سے خطاب

-: قیدیوں کی رہائی

-: غیب داں رسول صلی اﷲ تعالٰی علہ وسلم

-: عمرۂ جِعرانہ

۸ ھ کے متفرق واقعات :-

-: توبہ کی فضیلت