ہجرت کا پہلا سال
- مسجد قباء
- مسجد الجمعہ
- ابو ایوب انصاری کا مکان
- حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام
- حضور کے اہل و عیال مدینہ میں
- مسجد نبوی کی تعمیر
- ازواجِ مطہرات کے مکانات
- مہاجرین کے گھر
- حضرت عائشہ کی رُخصتی
- اذان کی ابتداء
- انصار و مہاجر بھائی بھائی
- یہودیوں سے معاہدہ
- مدینہ کے لئے دُعا
- حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے
- نمازوں کی رکعت میں اضافہ
- تین جاں نثاروں کی وفات
-: مسجد قباء
’’قبا‘‘میں سب سے پہلاکام ایک مسجد کی تعمیرتھی۔ اس مقصد کے لیے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک زمین کو پسند فرمایا جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اسی جگہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔یہی وہ مسجد ہے جو آج بھی’’مسجد قباء‘‘کے نام سے مشہور ہے اور جس کی شان میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ۔
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)1
(توبہ)
یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس (مسجد) میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکی بہت پسند ہے اور اﷲ تعالٰی پاک رہنے والوں سے محبت فرماتاہے۔
اس مبارک مسجد کی تعمیرمیں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے ساتھ ساتھ خود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے ا تنے بڑے بڑے پتھر اُٹھاتے تھے کہ ان کے بوجھ سے جسم نازک خم ہو جاتا تھااور اگر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جاں نثار اصحاب میں سے کوئی عرض کرتا یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ہمارے ماں باپ قربان ہوجائیں آپ چھوڑ دیجیے ہم اٹھائیں گے، تو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کی دلجوئی کے لیے چھوڑ دیتے مگر پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے اور خود ہی اس کو لاکر عمارت میں لگاتے اور تعمیر ی کام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے ساتھ آواز ملاکر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ
اَفْلَحَ مَنْ یُّعَالِجُ الْمَسْجِدَا وَیَقْرَءُ الْقُرْاٰنَ قَائِمًا وَّقَاعِدًا وَلَا یَبِیْتُ اللَّیْلَ عَنْہُ رَاقِدًا
وہ کامیا ب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا۔2
(وفا ء الوفاء ج ۱ص۱۸۰)
1پ۱۱، التوبۃ : ۱۰۸ 2 وفاء الوفاء لسمہودی ، الباب الثالث، الفصل العاشرفی دخول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، المجلد الاول، الجزء الاول، ص۲۵۳
-: مسجد الجمعہ
-: مسجد الجمعہ
چودہ یا چوبیس روز کے قیام میں مسجد قباء کی تعمیر فرما کر جمعہ کے دن آپ ” قباء ” سے شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں قبیلۂ بنی سالم کی مسجد میں پہلا جمعہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے پڑھا۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج تک ” مسجد الجمعہ ” کے نام سے مشہور ہے۔ اہل شہر کو خبر ہوئی تو ہر طرف سے لوگ جذبات شوق میں مشتاقانہ استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننہالی رشتہ دار ” بنو النجار ” ہتھیار لگائے ” قباء ” سے شہر تک دورویہ صفیں باندھے مستانہ وار چل رہے تھے۔ آپ راستہ میں تمام قبائل کی محبت کا شکریہ ادا کرتے اور سب کو خیر و برکت کی دعائیں دیتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ شہر قریب آگیا تو اہل مدینہ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ پردہ نشین خواتین مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئیں اور یہ استقبالیہ اشعار پڑھنے لگیں کہ
طَلَعَ لْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاع
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَٰعي لِلّٰه دَاعِي
ہم پر چاند طلوع ہو گیا و داع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے۔ جب تک اﷲ سے دعاء مانگنے والے دعا مانگتے رہیں۔
اَيُّها الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاع
اَنْتَ شَرَّفْتَ الْمَدِيْنَة مَرْحَبًا يَاخَيْرَ دَاعٖ
اے وہ ذات گرامی ! جو ہمارے اندر مبعوث کئے گئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم وہ دین لائے جو اطاعت کے قابل ہے آپ نے مدینہ کو مشرف فرما دیا تو آپ کے لیے ” خوش آمدید ” ہے اے بہترین دعوت دینے والے۔
فَلَبِسْنَا ثَوْبَ يَمَنٍ بَعْدَ تَلْفِيْقِ الرِّقَاعٖ
فَعَلَيْكَ اللّٰه صَلّٰی مَا سَعیٰ لِلّٰه سَاعٖ
اتو ہم لوگوں نے یمنی کپڑے پہنے حالانکہ اس سے پہلے پیوند جوڑ جوڑ کر کپڑے پہنا کرتے تھے تو آپ پر اﷲ تعالٰی اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے۔ جب تک اﷲ کے لئے کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہیں۔
مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں کہ
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارْٖ
يَاحَبَّذا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارْٖ
ہم خاندان ” بنو النجار ” کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان بچیوں کے جوش مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہو کر پوچھا کہ اے بچیو ! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو ؟ تو بچیوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ” جی ہاں ! جی ہاں۔ ” یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ” میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ ”
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۵۹ و ۳۶۰)
چھوٹے چھوٹے لڑکے اور غلام جھنڈ کے جھنڈ مارے خوشی کے مدینہ کی گلیوں میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی آمد آمد کا نعرہ لگاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے۔ صحابی رسول براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جو فرحت و سرور اور انوار و تجلیات حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے دن ظاہر ہوئے نہ اس سے پہلے کبھی ظاہر ہوئے تھے نہ اس کے بعد۔
(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۵)
-: ابو ایوب انصاری کا مکان
-: ابو ایوب انصاری کا مکان
تمام قبائل انصار جو راستہ میں تھے انتہائی جوش مسرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم آپ ہمارے گھروں کو شرفِ نزول بخشیں مگر آپ ان سب محبین سے یہی فرماتے کہ میری اونٹنی کی مہار چھوڑ دو جس جگہ خدا کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ چنانچہ جس جگہ آج مسجد نبوی شریف ہے اس کے پاس حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مکان تھا اُسی جگہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر میں لے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اوپر کی منزل پیش کی مگر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کا لحاظ فرماتے ہوئے نیچے کی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ دونوں وقت آپ کے لئے کھانا بھیجتے اور آپ کا بچا ہوا کھانا تبرک سمجھ کر میاں بیوی کھاتے۔ کھانے میں جہاں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان پڑا ہوتا حصولِ برکت کے لئے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ اسی جگہ سے لقمہ اُٹھاتے اور اپنے ہر قول و فعل سے بے پناہ ادب و احترام اور عقیدت و جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے۔
ایک مرتبہ مکان کے اوپر کی منزل پر پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو اس اندیشہ سے کہ کہیں پانی بہہ کر نیچے کی منزل میں نہ چلا جائے اور حضور رحمت ِ عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو کچھ تکلیف نہ ہو جائے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے سارا پانی اپنے لحاف میں خشک کر لیا، گھر میں یہی ایک لحاف تھا جو گیلا ہو گیا۔ رات بھر میاں بیوی نے سردی کھائی مگر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ذرہ برابر تکلیف پہنچ جائے یہ گوارا نہیں کیا۔ سات مہینے تک حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اسی شان کے ساتھ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی میزبانی کا
شرف حاصل کیا۔ جب مسجد نبوی اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان حجروں میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے۔
(زرقانی علی المواهب، ج۱، ص۳۵۷ وغیره)
ہجرت کا پہلا سال قسم قسم کے بہت سے واقعات کو اپنے دامن میں لئے ہے مگر ان میں سے چند بڑے بڑے واقعات کو نہایت اختصار کے ساتھ ہم تحریر کرتے ہیں۔
-: حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام
-: حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہ مدینہ میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم تھے، خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ جوق در جوق ان کی زیارت کے لئے ہر طرف سے آنے لگے تو میں بھی اُسی وقت خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جونہی میری نظر جمالِ نبوت پر پڑی تو پہلی نظر میں میرے دل نے یہ فیصلہ کر دیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ پھر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں یہ ارشاد فرمایا کہ
اَيُّها النَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صِلُوا الْاَرْحَامَ وَ صَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ
اے لوگو! سلام کا چرچا کرو اور کھانا کھلاؤ اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو۔
احضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھا اور آپ کے یہ چار بول میرے کان میں پڑے تو میں اس قدر متاثر ہو گیا کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا دامن اسلام میں آ جانا یہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ مدینہ کے یہودیوں میں کھلبلی مچ گئی۔
(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۶ و بخاری وغیره)
-: حضور کے اہل و عیال مدینہ میں
-: حضور کے اہل و عیال مدینہ میں
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جب کہ ابھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے مکان ہی میں تشریف فرما تھے آپ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو پانچ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ بھیجا تا کہ یہ دونوں صاحبان اپنے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اہل و عیال کو مدینہ لائیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات جا کر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا اور حضرت اسامہ بن زید اور حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو مدینہ لے آئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا نہ آسکیں کیونکہ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ان کو مکہ میں روک لیا اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ساتھ ” حبشہ ” میں تھیں۔ انہی لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی اپنے سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ آ گئے ان میں حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا بھی تھیں یہ سب لوگ مدینہ آ کر پہلے حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے مکان پر ٹھہرے۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۷۲)
-: مسجد نبوی کی تعمیر
-: مسجد نبوی کی تعمیر
مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان باجماعت نماز پڑھ سکیں اس لئے مسجد کی تعمیر نہایت ضروری تھی حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی ” بنو النجار ” کا ایک باغ تھا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے اس باغ کو قیمت دے کر خریدنا چاہا۔ ان لوگوں نے یہ کہہ کر ” یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہم خدا ہی سے اس کی قیمت (اجرو ثواب) لیں گے۔ ” مفت میں زمین مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی لیکن چونکہ یہ زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا بھیجا۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرما دی۔
(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۸)
اس زمین میں چند درخت، کچھ کھنڈرات اور کچھ مشرکوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے درختوں کے کاٹنے اور مشرکین کی قبروں کو کھود کر پھینک دینے کا حکم دیا۔ پھر زمین کو ہموار کرکے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی اور کچی اینٹوں کی دیوار اور کھجور کے ستونوں پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنائی جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو جوش دلانے کے لئے ان کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجز کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ
اَللّٰهُمَّ لَاخَيْرَ اِلَّا خَيْرُ الْاٰخِرَة فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَ الْمُهَاجِرَة
(بخاری ج۱ ص۶۱)
اے اﷲ ! بھلائی تو صرف آخرت ہی کی بھلائی ہے۔ لہٰذا اے اﷲ ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ اسی مسجد کا نام ” مسجد نبوی ” ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے دُنیوی تکلفات سے پاک اور اسلام کی سادگی کی سچی اور صحیح تصویر تھی، اس مسجد کی عمارتِ اوّل طول و عرض میں ساٹھ گز لمبی اور چوّن گز چوڑی تھی اور اس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف بنایا گیا تھا مگر جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو مسجد کے شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف زمانوں میں مسجد نبوی کی تجدید و توسیع ہوتی رہی۔
امسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترہ تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترہ کا نام ” صفہ ” ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ ” اصحاب صفہ ” کہلاتے ہیں۔
(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۹ و بخاری)
-: ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے مکانات
-: ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے مکانات
مسجد نبوی کے متصل ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے لئے حجرے بھی بنوائے۔اس وقت تک حضرت بی بی سودہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما نکاح میں تھیں اس لئے دوہی مکان بنوائے۔ جب دوسری ازواجِ مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ یہ مکانات بھی بہت ہی سادگی کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ دس دس ہاتھ لمبے چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کی پتیوں کی چھت وہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔
(طبقات ابن سعد وغيرہ)
اﷲ اکبر ! یہ ہے شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ کاشانہ نبوت جس کی آستانہ بوسی اور دربانی جبریل علیہ السلام کے لئے سرمایہ سعادت اور باعث افتخار تھی۔
رسول خدا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کفار مکہ ان کے ساتھ خفیہ چال چل جائیں گے مگر خداوند مہربان نے ان کو کافروں کی خفیہ تدبیر سے بچا لیا۔
اﷲ اﷲ ! وہ شہنشاہ کونین جس کو خالق کائنات نے اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر مسند نشین بنایا اور جس کے سر پر اپنی محبوبیت کا تاج پہنا کر زمین کے خزانوں کی کنجیاں جس کے ہاتھوں میں عطا فرما دیں اور جس کو کائنات عالم میں قسم قسم کے تصرفات کا مختار بنا دیا، جس کی زَبان کا ہر فرمان کن کی کنجی، جس کی نگاہ کرم کے ایک اشارہ نے ان لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں اونٹوں کی مہار رہتی تھی انہیں اقوامِ عالم کی قسمت کی لگام عطا فرما دی۔ اﷲ اکبر ! وہ تاجدار رسالت جو سلطان دارین اور شہنشاہ کونین ہے اس کی حرم سرا کا یہ عالم ! اے سورج ! بول، اے چاند ! بتا تم دونوں نے اس زمین کے بے شمار چکر لگائے ہیں مگر کیا تمہاری آنکھوں نے ایسی سادگی کا کوئی منظر کبھی بھی اور کہیں بھی دیکھا ہے ؟
-: مہاجرین کے گھر
-: مہاجرین کے گھر
مہاجرین جو اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، ان لوگوں کی سکونت کے لئے بھی حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے قرب و جوار ہی میں انتظام فرمایا۔انصار نے بہت بڑی قربانی دی کہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنے مکانات اور زمینیں دیں اور مکانوں کی تعمیرات میں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی جس سے مہاجرین کی آبادکاری میں بڑی سہولت ہو گئی۔
سب سے پہلے جس انصاری نے اپنا مکان حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو بطور ہبہ کے نذر کیا اس خوش نصیب کا نام نامی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے، چنانچہ ازواجِ مطہرات کے مکانات حضرت حارثہ بن نعمان ہی کی زمین میں بنائے گئے۔ (رضی اﷲ تعالٰی عنہ)
-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رُخصتی
-: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رُخصتی
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کا حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے نکاح تو ہجرت سے قبل ہی مکہ میں ہو چکا تھا مگر ان کی رُخصتی ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ میں ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک پیالہ دودھ سے لوگوں کی دعوت ولیمہ فرمائی۔
(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۷۰)
-: اذان کی ابتداء
-: اذان کی ابتداء
مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان کردے۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں۔ چنانچہ وہ ’’ الصلٰوۃُ جامعۃٌ ‘‘ کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظر آئے۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو منجانب اﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔
(زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)
-: انصار و مہاجر بھائی بھائی
-: انصار و مہاجر بھائی بھائی
حضرات مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے اس لئے پردیس میں مفلسی کے ساتھ وحشت و بیگانگی اور اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دل جوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ سے اپنے دست و بازو کی کمائی کھانے کے خوگر تھے۔ اس لئے ضرور ت تھی کہ مہاجرین کی پریشانی کو دور کرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش مہیا کرنے کے لئے کوئی انتظام کیا جائے۔ اس لئے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت (بھائی چارہ) قائم کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا جائے تا کہ مہاجرین کے دلوں سے اپنی تنہائی اور بے کسی کا احساس دور ہوجائے اور ایک دوسرے کے مددگار بن جانے سے مہاجرین کے ذریعۂ معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ چنانچہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لئے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ حد ہو گئی کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری جو حضرت عبدالرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے ان کی دو بیویاں تھیں، حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔
اﷲ اکبر ! اس میں شک نہیں کہ انصار کا یہ ایثار ایک ایسا بے مثال شاہکار ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی مگر مہاجرین نے کیا طرز عمل اختیار کیا یہ بھی ایک قابل تقلید تاریخی کارنامہ ہے۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا کہ اﷲ تعالٰی یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آ پ کو مبارک فرمائے مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے مدینہ کے مشہور بازار ” قینقاع ” کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اسی طرح روزانہ وہ بازار جاتے رہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ کافی مالدار ہو گئے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ انہوں نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔ جب یہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے بیوی کو کتنا مہر دیا ؟ عرض کیا کہ پانچ درہم برابر سونا۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالٰی تمہیں برکتیں عطا فرمائے تم دعوتِ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔
(بخاری، باب الوليمة ولو بشاة، ص۷۷۷ ،ج۲)
اور رفتہ رفتہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی تجارت میں اتنی خیر و برکت اور ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول ہے کہ ” میں مٹی کو چھو دیتا ہوں تو سونا بن جاتی ہے ” منقول ہے کہ ان کا سامان تجارت سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور جس دن مدینہ میں ان کا تجارتی سامان پہنچتا تھا تو تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی۔
(اسد الغابه، ج۳، ص۳۱۴)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دکانیں کھول لیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ “قینقاع” کے بازار میں کھجوروں کی تجارت کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دی۔ غرض باوجودیکہ مہاجرین کے لئے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
مشہور مؤرخِ اسلام حضرت علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ یہ عقد مواخاۃ (بھائی چارہ کا معاہدہ) تو انصار و مہاجرین کے درمیان ہوا،اس کے علاوہ ایک خاص “عقد مواخاۃ”مہاجرین کے درمیان بھی ہوا جس میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنا دیا ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور حضرت عثمان و حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے درمیان جب بھائی چارہ ہو گیا تو حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے دربار رسالت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ نے اپنے صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا آخر میرا بھائی کون ہے؟ تو حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اَنْتَ اَخِيْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ یعنی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔
(مدارج النبوۃ ج۲ص۷۱)
-: یہودیوں سے معاہدہ
-: یہودیوں سے معاہدہ
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر، قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط محلات اور مستحکم قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا اور وہ اختلاف اب بھی موجود تھا اور انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج بہت کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ” جنگ بعاث ” میں ان دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہودی ہمیشہ اس قسم کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصار کے یہ دونوں قبائل ہمیشہ ٹکراتے رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہودیوں اور مسلمانوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں ایک معاہدہ کی ضرورت محسوس فرمائی تاکہ دونوں فریق امن و سکون کے ساتھ رہیں اور آپس میں کوئی تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انصار اور یہود کوبلا کر معاہدہ کی ایک دستاویز لکھوائی جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔
اس معاہدہ کی دفعات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے۔
(۱) خون بہا (جان کے بدلے جو مال دیا جاتا ہے) اور فدیہ (قیدی کو چھڑانے کے بدلے جو رقم دی جاتی ہے) کا جو طریقہ پہلے سے چلا آتا تھا اب بھی وہ قائم رہے گا۔
(۲) یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی ان کے مذہبی رسوم میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔
(۳) یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
(۴) یہودی یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا۔
(۵) اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔
(۶) کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔
(۷) کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کرے گا تو دوسرا فریق بھی اس مصالحت میں شامل ہو گا لیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔
(سيرتِ ابن هشام ج۴ ص۵۰۱ تا ۵۰۲)
-: مدینہ کے لئے دُعا
-: مدینہ کے لئے دُعا
چونکہ مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی یہاں طرح طرح کی وبائیں اور بماریاں پھیلتی رہتی تھیں اس لئے کثرت سے مہاجرین بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالٰی عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کر کے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ دعا فرمائی کہ یااﷲ ! ہمارے دلوں مں مدینہ کی ایسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور مدینہ کے صاع اور مُد (ناپ تول کے برتنوں) میں خیر و برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو ” جحفہ ” کی طرف منتقل فرما دے۔
(مدارج جلد ۲ ص۷۰ و بخاری)
-: حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے
-: حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے
۱ ھ کے واقعات میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ فارس کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباء و اجداد بلکہ ان کے ملک کی پوری آبادی مجوسی (آتش پرست) تھی۔ یہ اپنے آبائی دین سے بیزار ہو کر دین حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکلے مگر ڈاکوؤں نے ان کو گرفتار کر کے اپنا غلام بنا لیا پھر ان کو بیچ ڈالا۔ چنانچہ یہ کئی بار بکتے رہے اور مختلف لوگوں کی غلامی میں رہے۔ اسی طرح یہ مدینہ پہنچے، کچھ دنوں تک عیسائی بن کر رہے اور یہودیوں سے بھی میل جول رکھتے رہے۔ اس طرح ان کو توریت و انجیل کی کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ یہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو پہلے دن تازہ کھجوروں کا ایک طباق خدمت اقدس میں یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ” صدقہ ” ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمارے سامنے سے اٹھا کر فقرا و مساکین کو دے دو کیونکہ میں صدقہ نہیں کھاتا۔ پھر دوسرے دن کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور یہ کہہ کر کہ یہ ” ہدیہ ” ہے سامنے رکھ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کو ہاتھ بڑھانے کا اشارہ فرمایا اور خود بھی کھا لیا۔ اس درمیان میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان جو نظر ڈالی تو ” مہر نبوت ” کو دیکھ لیا چونکہ یہ توراۃ و انجیل میں نبی آخر الزمان کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اس لئے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔
(مدارج جلد۲ ص۷۱ وغيره)
-: نمازوں کی رکعت میں اضافہ
-: نمازوں کی رکعت میں اضافہ
اب تک فرض نمازوں میں صرف دو ہی رکعتیں تھیں مگر ہجرت کے سال اول ہی میں جب حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ظہر و عصر و عشاء میں چار چار رکعتیں فرض ہو گئیں لیکن سفر کی حالت میں اب بھی وہی دو رکعتیں قائم رہیں اسی کو سفر کی حالت میں نمازوں میں ” قصر ” کہتے ہیں۔
(مدارج جلد۲ ص۷۱)
-: تین جاں نثاروں کی وفات
-: تین جاں نثاروں کی وفات
اس سال حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم میں سے تین نہایت ہی شاندار اور جاں نثار حضرات نے وفات پائی جو درحقیقت اسلام کے سچے جاں نثار اور بہت ہی بڑے معین و مددگار تھے۔
اوّل :۔ حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالٰی عنہ یہ وہ خوش نصیب مدینہ کے رہنے والے انصاری ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر ” قبا ” میں تشریف لائے تو سب سے پہلے انہی کے مکان کو شرفِ نزول بخشا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے دونوں عالم کے میزبان کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت کے صفحات پر ان کا نام نامی ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔
دوم :۔حضرت براء بن معرور انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ یہ وہ شخص ہیں کہ ” بیعت عقبہ ثانیہ میں سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ اپنے قبیلہ ” خزرج ” کے نقیبوں میں تھے۔
سوم :۔حضرت اسعد بن زرارہ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ یہ بیعتِ عقبۂ اولیٰ اور بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں شامل رہے اور یہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کا ڈنکا بجایا اور ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔
جب مذکورہ بالا تینوں معززین صحابہ نے وفات پائی تو منافقین اور یہودیوں نے اس کی خوشی منائی اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو طعنہ دینا شروع کیا کہ اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اﷲ تعالٰی ان کو یہ صدمات کیوں پہنچاتا ؟ خدا کی شان کہ ٹھیک اسی زمانے میں کفار کے دو بہت ہی بڑے بڑے سردار بھی مر کر مردار ہو گئے۔ ایک ” عاص بن وائل سہمی ” جو حضرت عمرو بن العاص صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہ فاتح مصر کا باپ تھا۔ دوسرا ” ولید بن مغیرہ ” جو حضرت خالد سیف اﷲ صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا باپ تھا۔
روایت ہے کہ ” ولید بن مغیرہ ” جاں کنی کے وقت بہت زیادہ بے چین ہو کر تڑپنے اور بے قرار ہو کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا تو ابوجہل نے پوچھا کہ چچا جان ! آخر آپ کی بے قراری اور اس گریہ و زاری کی کیا و جہ ہے ؟ تو ” ولید بن مغیرہ ” بولا کہ میرے بھتیجے ! میں اس لئے اتنی بے قراری سے رو رہا ہوں کہ مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے گا۔ یہ سن کر ابو سفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا ! آپ ہرگز ہرگز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ میں نہیں پھیلنے دوں گا۔ چنانچہ ابو سفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے مگر فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق الاسلام بن گئے کہ اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے اور انہی جہادوں میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی۔ یہی وہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہیں۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۷۳ وغرنه)
اسی سال ۱ ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں سب سے پہلا بچہ جو پیدا ہوا وہ یہی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہیں۔ ان کی والدہ حضرت بی بی اسماء جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی صاحبزادی ہیں پیدا ہوتے ہی ان کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں۔ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈال دی۔ اس طرح سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں پہنچی وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا لعابِ دہن تھا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی پیدائش سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اس لئے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے مہاجرین پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان لوگوں کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔
(زرقانی ج۱ ص۴۶۰ و اکمال)