ہجرت کا دوسرا سال

-: قبلہ کی تبدیلی

-: لڑائیوں کا سلسلہ

-: غزوہ و سریّہ کا فرق

-: غزوات و سرایا

-: سریۂ حمزہ

-: سریۂ عبیدہ بن الحارث

-: سریۂ سعد بن ابی وقاص

-: غزوۂ ابواء

-: غزوۂ بواط

-: غزوۂ سفوان

-: غزوۂ ذی العُشیرہ

-: سریۂ عبد اﷲ بن جحش

-: جنگ ِ بدر

-: جنگ بدر کا سبب

-: مدینہ سے روانگی

-: ننھا سپاہی

-: کفار قریش کا جوش

-: ابو سفیان

-: کفار میں اختلاف

-: کفار قریش بدر میں

-: تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ سلم بدر کے میدان میں

-: سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی شب بیداری

-: کون کب ؟ اور کہاں مرے گا ؟

-: لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی

-: شکم مبارک کا بوسہ

-: عہد کی پابندی

-: دونوں لشکر آمنے سامنے

-: دعائے نبوی

-: لڑائی کس طرح شروع ہوئی

-: حضرت عمیر کا شوقِ شہادت

-: کفار کا سپہ سالار مارا گیا

-: حضرت زبیر کی تاریخی برچھی

-: ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا

-: ابو البختری کا قتل

-: اُمیّہ کی ہلاکت

-: فرشتوں کی فوج

-: کفار نے ہتھیار ڈال دیئے

-: شہدائے بدر

-: بدر کا گڑھا

-: کفار کی لاشوں سے خطاب

-: ضروری تنبیہ

-: مدینہ کو واپسی

-: مجاہدین بدر کا استقبال

-: قیدیوں کے ساتھ سلوک

-: اسیرانِ جنگ کا انجام

-: حضرت عباس کا فدیہ

-: حضرت زینب کا ہار

-: مقتولین بدر کا ماتم

-: عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش

ایک دن عمیر او رصفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے ۔ ایک دم صفوا ن بول اُٹھا کہ اے عمیر! میر ا باپ اوردوسرے رو سائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان!تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میر ے اعزہ وا قر باء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میر ا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور با ل بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کرمدینہ جاتااور دم زدن میں دھوکہ سے محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کر صفوان نے کہا کہ اے عمیر!تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔میں خدا کے گھر میں عہد کرتا ہوں کہ تمہارا ساراقرض ادا کردوں گااور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں ۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہو ئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچاتوحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو پکڑ لیااور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر!کس ارادہ سے آئے ہو؟ جوا ب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے او ر صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے؟ عمیریہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آگیااور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم!میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھااو ر د ن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔

حضرت عمیر مسلما ن ہو کر مکہ آئے اور جس طرح وہ پہلے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اب وہ کافروں کی جان کے دشمن بن گئے اور انتہائی بے خوفی اور بہادری کے ساتھ مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی دعوت اسلام سے بڑے بڑے کافروں کے اندھیرے دلوں میں نورایمان کی روشنی سے اُجالا ہوگیا اور یہی عمیر اب صحابی رسول حضرت عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہلانے لگے۔1

(تاریخ طبری ص۱۳۵۴)


1السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۷۴، ۲۷۵

-: مجاہدین بدر کے فضائل

-: ابو لہب کی عبر تناک موت

-: غزوہ بنی قینقاع

-: غزوۂ سویق

-: حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی

۲ھ کے متفرق واقعات :-