خاندانی حالات

-: نسب نامہ

-: خاندانی شرافت

-: قریش

-: ہاشم

-: عبدالمطلب

-: اصحابِ فیل کا واقعہ

-: حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ

-: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا ایمان

حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین کریمین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ دونوں مؤمن ہیں یا نہیں ؟بعض علماء ان دونوں کو مؤمن نہیں مانتے اور بعض علماء نے اس مسئلہ میں توقف کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کو مؤمن یا کافر کہنے سے زبان کو روکنا چاہیے اور اس کا علم خدا عزوجل کے سپرد کر دینا چاہیے، مگر اہل سنت کے علماء محققین مثلاً امام جلال الدین سیوطی و علامہ ابن حجرہیتمی و امام قرطبی و حافظ الشام ابن ناصر الدین و حافظ شمس الدین د مشقی و قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی و شیخ عبدالحق محدث دہلوی و صاحب الاکلیل مولانا عبدالحق مہاجر مدنی وغیرہ رحمہم اللہ تعالٰی کا یہی عقیدہ اور قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں یقینا بلا شبہ مؤمن ہیں ۔ چنانچہ اس بار ے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشاد ہے کہ

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو مؤمن نہ ماننا یہ علماء متقدمین کا مسلک ہے لیکن علماء متأخرین نے تحقیق کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما بلکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب ’’مؤمن‘‘ ہیں اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء متأخرین کے تین طریقے ہیں :

اول یہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے، لہٰذا ’’مؤمن‘‘ہوئے۔ دوم یہ کہ یہ تمام حضرات حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اعلان نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانہ ’’فترت‘‘ کہلاتا ہے اوران لوگوں تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں لہٰذا ہر گز ہر گز ان حضرات کو کافر نہیں کہا جا سکتابلکہ ان لوگوں کو مؤمن ہی کہا جائے گا۔ سوم یہ کہ اللہ تَعَالٰی نے ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تصدیق کی اور حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ بذات خود ضعیف ہے مگر اس کی سندیں اس قدر کثیر ہیں کہ یہ حدیث ’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔

اور یہ وہ علم ہے جو علماء متقدمین پر پوشیدہ رہ گیا جس کو حق تعالٰی نے علماء متأخرین پر منکشف فرمایا اور اللہ تَعَالٰی جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرما لیتا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں چند رسائل تصنیف کیے ہیں اور اس مسئلہ کو دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کے شبہات کا جواب دیا ہے۔ 1

(اشعۃ اللمعات ج اول ص ۷۱۸)

اسی طرح خاتمۃ المفسرین حضرت شیخ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ

امام قرطبی نے اپنی کتاب ’’تذکرہ‘‘ میں تحریر فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام جب ’’حجۃ الوداع‘‘ میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور’’ حجون ‘‘ کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، کیا بات ہے؟ کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ تَعَالٰی سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خداوند تعالٰی نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں ۔2 اور ’’الاشباه والنظائر‘‘ میں ہے کہ ہر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مر گیا ہو اس پر لعنت کرنا جائز ہے بجز رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے، کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے ان دونوں کو زندہ فرمایااور یہ دونوں ایمان لائے۔3

یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے ماں باپ رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک خشک درخت زمین میں بو دیا، اور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔ چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے۔

اور ان دونوں کا زندہ ہونا، اور ایمان لانا ، نہ عقلاً محال ہے نہ شرعاً کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتایا اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے دست مبارک سے بھی چند مردے زندہ ہوئے۔4 جب یہ سب باتیں ثابت ہیں تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے میں بھلا کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ ’’میں نے اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘ یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے سے بہت پہلے کی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا زندہ ہو کر ایمان لانا یہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا ہے جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وصال سے چند ہی ماہ پہلے کا واقعہ ہے)اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مراتب و درجات ہمیشہ بڑھتے ہی رہے تو ہو سکتا ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خداوند تعالٰی نے یہ شرف نہیں عطا فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما مسلمان ہوں مگر بعد میں اس فضل و شرف سے بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سرفراز فرمادیا کہ آپ کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو صاحب ایمان بنا دیا 5 اور قاضی امام ابوبکر ابن العربی مالکی سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آباء و اجداد جہنم میں ہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ملعون ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ 6

یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تَعَالٰی ان کو دنیا و آخرت میں ملعون کر دے گا۔

حافظ شمس الدین د مشقی رحمۃاللہ تَعَالٰی علیہ نے اس مسئلہ کو اپنے نعتیہ اشعار میں اس طرح بیان فرمایا ہے : ؎

حَبَا اللّٰہُ النَّبِیَّ مَزِیْدَ فَضْلٍ

عَلٰي فَضْلٍ وَّ کَانَ بِه رَءُ وْفًا

اللہ تَعَالٰی نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کوفضل بالائے فضل سے بھی بڑھ کر فضیلت عطا فرمائی اور اللہ تَعَالٰی ان پر بہت مہربان ہے۔

فَاَحْیَا اُمَّہٗ وَکَذَا اَبَاہُ

لِاِیْمَان بِہٖ فَضْلًا لَّطِیْفًا

کیونکہ خدا وند تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ماں باپ کو حضور پر ایمان لانے کے لئے اپنے فضل لطیف سے زندہ فرما دیا۔

فَسَلِّمْ فَالْقَدِیْمُ بِہٖ قَدِیْرٌ

وَاِنْ کَانَ الْحَدِیْثُ بِہٖ ضَعِیْفًا

تو تم اس بات کو مان لو کیونکہ خداوند قدیم اس بات پر قادر ہے اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ 7

(تفسیر روح البیان ج ۱ ص۲۱۷ تا۲۱۸، انتہی ملتقطاً)

صاحب الاکلیل حضرت علامہ شیخ عبدالحق مہاجر مدنی قدس سرہ الغنی نے تحریر فرمایا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی نے مشکوٰۃ کی شرح میں فرمایا ہے کہ ’’حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو اللہ تَعَالٰی نے زندہ فرمایا، یہاں تک کہ وہ دونوں ایمان لائے اور پھر وفات پا گئے۔ ‘‘ یہ حدیث صحیح ہے اور جن محدثین نے اس حدیث کو صحیح بتایا ہے ان میں سے امام قرطبی اور شام کے حافظ الحدیث ابن ناصر الدین بھی ہیں اور اس میں طعن کرنا بے محل اور بے جا ہے، کیونکہ کرامات اور خصوصیات کی شان ہی یہ ہے کہ وہ قواعد اور عادات کے خلاف ہوا کرتی ہیں ۔

چنانچہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا موت کے بعد اٹھ کر ایمان لانا، یہ ایمان ان کے لئے نافع ہے حالانکہ دوسروں کے لئے یہ ایمان مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو نسبت رسول کی وجہ سے جو کمال حاصل ہے وہ دوسروں کے لئے نہیں ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث لیت شعری ما فعل ابوای (کاش! مجھے خبر ہوتی کہ میرے والدین کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا) کے بارے میں امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ’’درمنثور‘‘ میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور ضعیف الاسناد ہے۔

(اکلیل علیٰ مدارک التنزیل ج ۲ ص۱۰)

بہرکیف مندرجہ بالا اقتباسات جو معتبر کتابوں سے لئے گئے ہیں ان کو پڑھ لینے کے بعد حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما اور تمام آباء و اجداد بلکہ تمام رشتہ داروں کے ساتھ ادب و احترام کا التزام رکھا جائے۔ بجزان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ’’ابو لہب‘‘ اور اس کی بیوی ’’حمالۃ الحطب‘‘ باقی تمام قرابت والوں کا ادب ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے کیونکہ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نسبت قرابت حاصل ہے ان کی بے ادبی و گستاخی یقینا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایذا رسانی کا باعث ہو گا اور آپ قرآن کا فرمان پڑھ چکے کہ جو لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں ۔

اس مسئلہ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک محققانہ رسالہ بھی ہے جس کا نام ’’شمول الاسلام لاباء الکرام‘‘ ہے۔ جس میں آپ نے نہایت ہی مفصل و مدلل طور پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے آباء و اجداد موحد و مسلم ہیں ۔

(والله تعالٰی اعلم)


-: برکات نبوت کا ظہور