خاندانی حالات

-: نسب نامہ

-: خاندانی شرافت

-: قریش

-: ہاشم

-: عبدالمطلب

-: اصحابِ فیل کا واقعہ

-: حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ

یہ ہمارے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ چونکہ ان کی پیشانی میں نور محمدی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا اس لئے حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔ قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتیں ان کے حسن و جمال پر فریفتہ اور ان سے شادی کی خواست گار تھیں ۔ مگر عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں ۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تَعَالٰینے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے، ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بحفاظت ان کے مکان تک پہنچا دیا۔’’وہب بن مناف‘‘ بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کوحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی شادی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظرحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہابنت وہب میں موجود تھیں ۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے نکاح ہو گیااور نور محمدی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منتقل ہو کر حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے شکم اطہر میں جلوہ گر ہو گیا اور جب حمل شریف کو دو مہینے پورے ہو گئے تو عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کھجوریں لینے کے لئے مدینہ بھیجا، یا تجارت کے لئے ملک شام روانہ کیا، وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے مدینہ میں اپنے والد کے ننہال ’’بنو عدی بن نجار‘‘ میں ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس برس کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں ’’دارِ نابغہ‘‘ میں مدفون ہوئے۔1

(زرقانی علی المواہب ج ۱ ص۱۰۱ و مدارج جلد۲ ص۱۴)

قافلہ والوں نے جب مکہ واپس لوٹ کر عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیماری کا حال سنایا تو انہوں نے خبر گیری کے لئے اپنے سب سے بڑے لڑکے ’’حارث‘‘ کو مدینہ بھیجا۔ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ راہی ملک بقا ہو چکے تھے۔ حارث نے مکہ واپس آ کر جب وفات کی خبر سنائی تو سارا گھر ماتم کدہ بن گیااور بنو ہاشم کے ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا ۔خود حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے اپنے مرحوم شوہر کا ایسا پردرد مرثیہ کہا ہے کہ جس کو سن کر آج بھی دل درد سے بھر جاتا ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الٰہی !عَزَّوَجَلَّ تیرا نبی یتیم ہو گیا ۔حضرت حق نے فرمایا : کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں ۔ 2

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ترکہ ایک لونڈی ’’اُم ایمن‘‘ جس کا نام ’’برکہ‘‘ تھاکچھ اونٹ کچھ بکریاں تھیں ، یہ سب ترکہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ملا۔ ’’اُمِ ایمن‘‘ بچپن میں حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں کھلاتیں ، کپڑا پہناتیں ، پرورش کی پوری ضروریات مہیا کرتیں ، اس لئے حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام عمر’’اُم ایمن‘‘ کی دل جوئی فرماتے رہے اپنے محبوب و متبنٰی غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کا نکاح کر دیا، اور ان کے شکم سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئے۔ 3

(عامہ کتب سیر)


-: ایمانِ والدین کریمین رضی اﷲ تعالٰی عنہما

-: برکات نبوت کا ظہور