ہجرت کا چھٹا سال

-: بیعۃ الرضوان

-: صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی

-: حضرت ابو جندل کا معاملہ

یہ عجیب اتفاق ہے کہ معاہدہ لکھا جا چکا تھا لیکن ابھی اس پر فریقین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کے صاحبزادے حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے گرتے پڑتے حدیبیہ میں مسلمانوں کے درمیان آن پہنچے۔ سہیل بن عمرو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )اس معاہدہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے میری پہلی شرط یہ ہے کہ آپ ابوجندل کو میری طرف واپس لوٹایئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو اس معاہدہ پر فریقین کے دستخط ہی نہیں ہوئے ہیں ۔ ہمارے اور تمہارے دستخط ہوجانے کے بعد یہ معاہدہ نافذ ہوگا۔ یہ سن کر سہیل بن عمرو کہنے لگا کہ پھر جایئے۔ میں آپ سے کوئی صلح نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اے سہیل!تم اپنی طرف سے اجازت دے دو کہ میں ابوجندل کو اپنے پاس رکھ لوں ۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جب دیکھا کہ میں پھر مکہ لوٹا دیا جاؤں گا تو انہوں نے مسلمانوں سے فریاد کی اور کہا کہ اے جماعت مسلمین!دیکھو میں مشرکین کی طرف لوٹایا جارہاہوں حالانکہ میں مسلمان ہوں اور تم مسلمانوں کے پاس آگیا ہوں کفار کی مار سے ان کے بدن پر چوٹوں کے جو نشانات تھے انہوں نے ان نشانات کو دکھا دکھا کر مسلمانوں کو جوش دلایا۔ 1

حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ پر حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی تقریر سن کر ایمانی جذبہ سوار ہوگیا اور وہ دندناتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ کیا آپ سچ مچ اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں ؟ پھر انہوں نے کہا کہ تو پھر ہمارے دین میں ہم کو یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں اللہ کا رسول ہوں ۔میں اس کی نافرمانی نہیں کرتاہوں ۔ وہ میرا مددگار ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا آپ ہم سے یہ وعدہ نہ فرماتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آکر طواف کریں گے؟ ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے تم کو یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ میں داخل ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ’’نہیں ‘‘ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ تم یقینا کعبہ میں پہنچو گے اور اس کا طواف کرو گے۔

درباررسالت سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس آئے اور وہی گفتگو کی جو بارگاہ رسالت میں عرض کرچکے تھے۔آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اے عمر!وہ خدا کے رسول ہیں ۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تَعَالٰی ہی کے حکم سے کرتے ہیں وہ کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگار ہے اور خدا کی قسم!یقینا وہ حق پر ہیں لہٰذا تم ان کی رکاب تھامے رہو۔2

(ابن ہشام ج ۳ص۳۱۷ )

حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو تمام عمر اِن باتوں کا صدمہ اور سخت رنج و افسوس رہا جو انہوں نے جذبہ بے اختیاری میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کہہ دی تھیں ۔ زندگی بھر وہ اس سے توبہ و استغفار کرتے رہے اور اس کے کفارہ کے لئے انہوں نے نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے، خیرات کی، غلام آزاد کئے۔بخاری شریف میں اگرچہ ان اعمال کا مفصل تذکرہ نہیں ہے، اجمالاً ہی ذکر ہے لیکن دوسری کتابوں میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ تمام باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ 3

بہرحال یہ بڑے سخت امتحان اور آزمائش کا وقت تھا۔ ایک طرف حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ گڑگڑا کر مسلمانوں سے فریاد کررہے ہیں اور ہر مسلمان اس قدر جوش میں بھرا ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تلواریں نیام سے باہر نکل پڑتیں ۔ دوسری طرف معاہدہ پر دستخط ہوچکے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی ذمہ داری سر پر آن پڑی ہے۔ حضورِ انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللہ تَعَالٰی تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔ غرض حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو اسی طرح پابزنجیر پھر مکہ واپس جانا پڑا۔ 4

جب صلح نامہ مکمل ہوگیا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اٹھو اور قربانی کرو اور سرمنڈا کر احرام کھول دو۔ مسلمانوں کی ناگواری اور ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ فرمان نبوی سن کر ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ مگر ادب کے خیال سے کوئی ایک لفظ بول بھی نہ سکا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ کسی سے کچھ بھی نہ کہیں اور خود آپ اپنی قربانی کرلیں اور بال ترشوا لیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو قربانی کرکے احرام اتارتے دیکھ لیا تو پھر وہ لوگ مایوس ہوگئے کہ اب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتے تو سب لوگ قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال تراشنے لگے مگر اس قدر رنج و غم میں بھرے ہوئے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کرڈالے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ 5

(بخاری ج۲ ص۶۱۰ باب عمرۃ القضاء مسلم جلد ۲ ص۱۰۴صلح حدیبیہ بخاری ج۱ص۳۸۰باب شروط فی الجہاد الخ )


1شرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۱۔۲۱۳ وکتاب المغا زی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ، ج۲، ص۲۰۸ 2کتاب المغازی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ، ج۲، ص۶۰۸ وشرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۷۔۲۱۹ 3شرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۳ 4کتاب المغازی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ، ج۲، ص۲۲۰ 5صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۷۳۱، ۲۷۳۲، ج۲، ص۲۲۷مفصلاً

-: مظلومین مکہ

-: حضرت ابو بصیر کا کارنامہ

-: سلاطین کے نام دعوت اسلام

-: نامہ مبارک اور قیصر

-: خسرو پرویز کی بددماغی

-: نجاشی کا کردار

-: شاہ مصر کا برتاؤ

-: بادشاہ یمامہ کا جواب

-: حارث غسانی کا گھمنڈ

-: سریۂ نجد

-: ابو رافع قتل کردیا گیا

-: بادشاہ یمامہ کا جواب