ہجرت کا چھٹا سال

-: بیعۃ الرضوان

-: صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی

-: حضرت ابو جندل کا معاملہ

-: مظلومین مکہ

-: حضرت ابو بصیر کا کارنامہ

-: سلاطین کے نام دعوت اسلام

-: نامہ مبارک اور قیصر

-: خسرو پرویز کی بددماغی

-: نجاشی کا کردار

-: شاہ مصر کا برتاؤ

-: بادشاہ یمامہ کا جواب

-: حارث غسانی کا گھمنڈ

حضرت شجاع رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جب حارث غسانی والی غسان کے سامنے نامۂ اقدس کو پیش کیا تو وہ مغرور خط کو پڑھ کر برہم ہوگیا اور اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ چنانچہ مدینہ کے مسلمان ہر وقت اس کے حملہ کے منتظر رہنے لگے۔ اور بالآخر ’’غزوہ موتہ‘‘ اور’’غزوہ تبوک‘‘ کے واقعات درپیش ہوئے جن کا مفصل تذکرہ ہم آگے تحریر کریں گے۔

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان بادشاہوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سلاطین و امراء کو دعوت اسلام کے خطوط تحریر فرمائے جن میں سے کچھ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا اور کچھ خوش نصیبوں نے اسلام قبول کرکے حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں نیازمندیوں سے بھرے ہوئے خطوط بھی بھیجے۔ مثلاً یمن کے شاہان حمیر میں سے جن جن بادشاہوں نے مسلمان ہوکر بارگاہ نبوت میں عرضیاں بھیجیں جو غزوۂ تبوک سے واپسی پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں ان بادشاہوں کے نام یہ ہیں :

(۱)حارث بن عبد کلال

(۲)نعیم بن عبد کلال

(۳) نعمان حاکم ذورعین ومعافروہمدان

(۴) زرعہ

یہ سب یمن کے بادشاہ ہیں ۔

ان کے علاوہ ’’فروہ بن عمرو‘‘ جو کہ سلطنت روم کی جانب سے گورنر تھا۔ اپنے اسلام لانے کی خبر قاصد کے ذریعہ بارگاہ رسالت میں بھیجی۔ اس طرح ’’باذان‘‘جو بادشاہ ایران کسریٰ کی طرف سے صوبہ یمن کا صوبہ دار تھا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا اور ایک عرضی تحریر کرکے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی خبر دی۔1 ان سب کا مفصل تذکرہ ’’سیرت ابن ہشام و زرقانی و مدارج النبوۃ‘‘ وغیرہ میں موجود ہے۔ہم اپنی اس مختصر کتاب میں ان کا مفصل بیان تحریر کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔


1الکامل فی التاریخ، ذکر مکاتبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الملوک، ج۲، ص۹۶

-: سریۂ نجد

-: ابو رافع قتل کردیا گیا

-: بادشاہ یمامہ کا جواب